کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 24
15،16،17۔ اپنے دین کا دفاع کرتے ہوئے یا اپنے ذاتی وجانی دفاع کے دوران مارا جانے والا شخص بھی حدیث کی رو سے شہید ہے۔اور جو شخص اپنے اہلِ وعیال کا دفاع کرتے ہوئے وفات پاجائے اسے بھی شہید ہی بتایا گیا ہے۔[1] 18۔ اللہ کی راہ میں ایک دن رات کا رباط وپہرے داری اور دشمن کی تاک میں مورچہ لگائے بیٹھے رہنا مہینہ بھرکے دنوں کے روزے اور راتوں کے قیام سے افضل ہے اور اگر وہ اسی دوران مارا گیا تو اسے اسکے اس عمل کا ثواب قیامت تک پہنچتا رہے گا اور وہ جانچنے والوں(فتنۂ منکر ونکیر)سے محفوظ رہے گا۔[2] جبکہ معجم طبرانی کی اسی روایت میں یہ اضافی الفاظ بھی ہیں کہ وہ قیامت کے دن شہید اٹھایا جائے گا۔لیکن اسکی سند کے بعض راویوں کو امام ہیثمی نے غیر معروف قراردیا ہے۔[3] اگرچہ امام منذری نے اسکی سند پر سکوت اختیار کرکے اسکے قابلِ قبول ہونے کا اشارہ دیا ہے۔[4] ایک اور حدیث میں ہے کہ ہر شخص کا عمل اسکی موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے سوائے اللہ کی راہ میں مورچہ لگائے بیٹھے ہونے کی حالت میں وفات پانے والے کے،اسے قیامت تک ثواب پہنچتا رہتا ہے اور وہ فتنۂ قبر سے بھی محفوظ رہتا ہے۔[5] 19۔ کسی نیک عمل پر وفات پاجانے والا بھی حسنِ خاتمہ والا شمار کیا گیا ہے کہ جس نے رضاء الٰہی کیلئے لا الٰہ الّا اللّٰه کہا اور اسی پر اسکا خاتمہ ہوا وہ جنت میں گیا۔جس نے رضاء الٰہی کیلئے ایک دن کا روزہ رکھا اور اسی پر اسکا خاتمہ ہوگیا تو وہ بھی جنت میں گیا اور جس نے اللہ کی خوشنودی کیلئے صدقہ
[1] ابوداؤد۲؍۲۷۵،ترمذی۲؍۳۱۶،نسائی۲؍۱۷۳۔۱۷۴،مسنداحمد:۱۶۵۲،۱۶۵۳،۲۷۸۰ [2] مسلم ۶؍۵۱،ترمذی۳؍۱۸،نسائی۲؍۶۳۔مستدرک حاکم۲؍۸۰،مسنداحمد ۵؍۴۴۰۔۴۴۱ [3] مجمع الزوائد ۵؍۲۹۰ [4] الترغیب والترھیب:۲؍۱۵۰ [5] ابوداؤد ۱؍۳۹۱،ترمذی۳؍۲،مستدرک حاکم۲؍۱۴۴،مسنداحمد۶؍۲۰