کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 19
’’ایسے موقع پر بندۂ مؤمن کے دل میں جو بھی امید پیدا ہو اللہ اسے وہ عطا فرماتا ہے اورجس چیز سے وہ ڈرے اللہ اسے اس سے محفوظ رکھتا ہے۔‘‘ 3۔ بیمار کی بیماریچاہے کتنی بھی شدید کیوں نہ ہو جائے اسے موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بیماری کی حالت میں موت کی تمنا کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمادیا اور ایسی حالت میں اگر کچھ کہنا ہی ہو تو یہ دعاء کریں: ((اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْراً لِّیْ وَتَوَ فَّنِیْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْراً لِّیْ))[1] ’’اے اللہ! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے موت بہتر ہوجائے تو مجھے فوت کردینا۔‘‘ 4۔ اگر اسکے ذمے لوگوں کے حقوق اور قرضہ وغیرہ ہو تو حسبِ استطاعت وہ اداکردے یا پھر اپنے گھر والوں کو اسکے بارے میں تاکید کردے کیونکہ یہ حقوق العباد ہیں اور یہ کسی بھی صورت معاف نہیں جب تک کہ وہ ادا نہ کئے جائیں یا پھر خود حقوق والے معاف نہ کردیں بصورتِ دیگر قیامت کے دن بھی یہ ادا کرنے ہی پڑیں گے اور ظاہر ہے اس وقت نہ کسی کے پاس درہم ودینار ہونگے نہ کوئی دوسرا ذریعۂ ادائیگی،اس وقت معاملہ سب نیکیوں اور برائیوں سے ہی نمٹا یا جائے گا جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں وارد بعض صحیح احادیث سے پتہ چلتا ہے۔[2] 5۔ اگر اسکے پاس کوئی مال وغیرہ ہو تو اسے چاہیئے کہ وارثوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں اور دینی اداروں کیلئے اپنے مال سے وصیت کر جائے جو ایک تہائی(1؍3)سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے
[1] بخاری،مسلم،ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ،مستدرک حاکم۱؍۳۳۹،بیہقی۳؍۳۷۷،صحیح الترغیب۳؍۳۱۵ [2] بخاری،مسلم،بیہقی ۳؍۳۶۹ مستدرک حاکم ۲؍۲۷،مسند احمد ۲؍۷۰۔۸۲،صحیح الجامع:۸۷،۶۵۱۱،۶۵۴۶