کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 15
اور مسند احمد میں یہ الفاظ بھی ہیں:
((ثُمَّ یُعْلٰی عَلَیْہَا دِرْعٌ مِنْ لَھَبِ النَّارِ))[1]
’’(کہ)پھر اس آتش گیر مادے کے اُوپر آگ کے شعلے کی ذرع ہوگی۔‘‘
شریعت ِ اسلامیہ ہر معاملہ میں چونکہ اعتدال پسند ہے،اس میں نہ خوشی کے مواقع پر حدِّ اعتدال پھلانگنا جائز ہے اور نہ ہی مرگ کا سوگ منانے پر لگائی گئی حدود اور پابندیاں توڑنا رواہے۔ایسے مواقع پر عورت کی طبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے اس کے لیے شوہرکے سوا ہر عزیز کی مرگ کا صرف تین دن سوگ منانا جائز رکھا ہے،البتہ اگر کسی کے شوہر کی مرگ ہوجائے تو اس عورت کو چار ماہ اور دس دن تک سوگ منانے کی اجازت ہے۔چنانچہ سورۃ البقرہ،آیت:۲۳۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجاً یَّتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّعَشْرًا﴾
’’تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس(دن)عدت میں رکھیں۔‘‘
اور یہ سوگ یا عدّت مدخولہ،غیرمدخولہ،جوان اور بوڑھی ہر عورت کے لیے ہے سوائے حاملہ کے کیونکہ اسکی عدّت وسوگ کا زمانہ وضع حمل تک ہے۔چنانچہ سورۃ الطلاق،آیت:۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿......وَاُوْلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ﴾
’’حاملہ عورتوں کی عدّت ان کا وضع حمل ہے۔‘‘
[1] مسند احمد ۵؍۳۴۲۔۳۴۳۔۳۴۴،بحوالہ الصحیحہ ۴؍۵۹۵،ابن ماجہ(۱۵۸۲)لیکن یہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔