کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 12
﴿وَلَا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَأُخْرٰی﴾
’’اور کسی کے گناہ کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اُٹھائے گا۔‘‘
تاہم اہلِ علم نے اس تعارض کو دُور کرنے کیلئے کئی آراء ذکر کی ہیں جن میں سے یہ بھی ہے کہ آگے جانے والا اگر پسماندگان کو بَین و نوحہ کرنے کی وصیّت کرکے جائے اور وہ اس پر عمل کر گزریں تو اُسے اُن کے نوحہ کی وجہ سے عذاب دیا جائیگا۔اور بعض نے اس حدیث میں مذکور لفظ ’’عذاب‘‘ کا مفہوم ’’احساسِ الم‘‘ بیان کیا ہے،جبکہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کچھ بھی ہو،ہم تو یہ کہتے ہیں کہ(صحیح احادیث میں)رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ پسماندگان کے بَین کرنے سے میّت کو عذاب ہوتا ہے:
((فَسَمِعْنَاوَاَطَعْنَا))
’’پس ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سُنا اور اطاعت کی۔‘‘
اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کہتے۔[1]
بعض لوگ اور خصوصاََ خواتین غم کے موقعوں پر صبر کا دامن چھوڑ دیتی ہیں اور جائز رونے اور آنسوبہانے کے ساتھ ساتھ ہی نوحہ خوانی بھی شروع کر دیتی ہیں کہ رونے کے ساتھ ساتھ مرنے والے کی صفات اوراس کی موت کی وجہ سے پیش آمدہ مصائب کی گنتی شُروع ہوجاتی ہے،اور ایک راگ کے ساتھ بَین کئے جاتے ہیں۔اس نوحہ خوانی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع کیا ہے۔چنانچہ بخاری و مسلم اور ابو داؤد و نسائی میں حضرت اُمّ عَطِیہّ رضی اللہ عنہا سے مَروی ہے:
((أَخَذَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔عِنْدَ الْبَیْعِۃِ اَنْ لَا نُنوحَ))[2]
’’ہم سے بیعت لیتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد لیا تھا کہ ہم نوحہ خوانی نہیں کریں گی۔‘‘
[1] للتفصیل الفتح الربانی ۷؍۱۲۶۔۱۲۹
[2] صحیح بخاری(۱۳۰۶)،مسلم مع نووی(۳؍۶؍۲۲۷)،صحیح ابی داؤد(۲۶۸۲)،صحیح النسائی(۳۸۹۶)ریاض الصالحین ص:۶۳۴