کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 11
مرنے والے کی صفات اور اس کی موت کی وجہ سے پیش آنے والے مصائب کا ذکر نہ چھیڑا جائے،کیونکہ بخاری و مسلم اور ابوداؤد میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِنَّ اللّٰهَ لَا یُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَیْنِ وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ وَلٰکِنْ یُعَذِّبْ بِھٰذاَ أَوْ یَرْحَمُ(وَأَشَارَ اِلٰی لِسَانِہٖ))[1] ’’اﷲتعالیٰ آنکھوں سے آنسُو بہانے اور دل کے حُزن وغم پر عذاب نہیں کرے گا،البتہ اس کے عذاب دینے یا رحم فرمانے کا تعلق اِس سے ہے،اور یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘ اسلام میں مقام و مرتبہ شہادت اور شہادت یا طبعی موت مرنے والوں کے پسماندگان کے صبرو ہمت کرنے اور ایسے مواقع پر آنسُو بہانے کے جواز کی طرف اشارہ تو ہوچکا ہے،اور آنسُو بہانے کے ساتھ اس شرط کا بھی ذکر ہوچکا ہے کہ اس کے ساتھ زبان سے بَین و نوحہ خوانی،واویلا اور واہی تباہی جائز نہیں،کیونکہ نوحہ خوانی آگے جانے والے کے ساتھ خیر خواہی نہیں بلکہ نادانستہ دشمنی کے مترادف ہے،چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اَلْمَیِّتُ یُعَذَّبُ فِی قَبْرِہٖ بِمَا نِیْحَ عَلَیْہِ))[2] ’’میت کو اپنے پسماندگان کی نوحہ خوانی کے سبب قبر میں عذاب ہوتا ہے۔‘‘ اس حدیث شریف کا مفہوم بظاہر سورۂ انعام کی آیت:۱۶۴،سورۂ اسراء،آیت:۱۵،سورۂ فاطر،آیت:۱۸،سُورۂ زمر،آیت:۷ اور سورۂ نجم کی آیت ۳۸ کے معارض ہے جس میں ارشادِ الٰہی ہے:
[1] بخاری مع الفتح(۱۳۰۴)۳؍۲۰۹،صحیح مسلم مع نووی ۳؍۶؍۲۲۶،صحیح ابی داؤد(۲۶۸۱) [2] صحیح بخاری ۱۲۹۲،۳؍۱۹۱،مسلم مع نووی ۳؍۶؍۲۲۹،صحیح الترمذی ۸۰۰،صحیح نسائی ۱۷۴۹،ابن ماجہ(۱۵۹۳)ریاض الصالحین ص:۶۳۳