کتاب: مختصر مسائل و احکام نمازِ جنازہ - صفحہ 10
اسی قانون ِ الٰہی کے تحت جب کسی کو موت آجائے تو ایسے موقعہ پر فطرتی اَمر ہے کہ پسماندگان کو صدمہ اور دُکھ تو پہنچے گا،مگر اس کے اظہار کی کہاں تک اور کس طرح گنجائش ہے،اس سلسلہ میں بھی شریعتِ اسلامیہ میں واضح ہدایات موجود ہیں،چنانچہ سورہ ٔبقرہ،آیت:۱۵۶ میں اﷲتعالیٰ نے ایسے موقع پر صبروہمّت سے کام لینے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ علیہم السلام الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ علیہم السلام اُوْلٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ﴾ (سورۂ بقرہ:۱۵۵تا۱۵۶) ’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں جو مصیبت کے وقت یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اﷲکیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہے،اور یہی لوگ(آخرت میں)کامیابی پانے والے ہیں۔‘‘ مصیبت آجائے،دل دُکھوں سے بھر جائے اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک پڑے تو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے رونا اور آنسو بہانا بھی جائز ہے،کیونکہ صحیح بخاری و مسلم میں ایسے کئی مواقع پر خود نبی ٔرحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنسو بہانا ثابت ہے،جیسا کہ بخاری و مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ پر[1]بخاری و مسلم اورابوداؤد میں اپنی بیٹی کی ایک لختِ جگر(امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما)پر[2] اور بخاری و مسلم اور ابوداؤد میں خود اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پر آنسو بہاناثابت ہے۔[3] بشرطیکہ رونے اور آنسوبہانے کے ساتھ زبان نہ چلائی جائے،
[1] صحیح بخاری ۱۳۰۴،مسلم مع النووی ۳؍۶؍۲۲۶ [2] صحیح بخاری(۱۲۸۴)،مسلم مع نووی ۳؍۶؍۲۲۴،صحیح ابی داؤد(۲۶۸۰) [3] صحیح بخاری(۱۳۰۳)،۳؍۲۰۶،مسلم مع نووی ۸؍۱۵؍۷۵،صحیح ابی داؤد(۲۶۸۱)ریاض الصالحین بتحقیق الارناؤ وط ص:۳۸۸۔۳۸۹