کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 9
الْمُشْرِکِیْنَ(سورۃ یوسف:۱۰۸) آپ ان سے صاف کہہ دیجئے کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔ توحید کی حقانیت جب لوگوں کے دلوں میں بیٹھنے لگی تو ہر آنے والی مصیبت ان کے لئے سہل ہونے لگی۔سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا گرم پتھروں اور کوئلوں پر احد احد پکارنا،سیدنا خبیب جہنی رضی اللہ عنہ کا شہادت سے قبل دو رَکعت پڑھنے کی اجازت طلب کرنا،سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بوقت وفات شہادت کی حسرت میں رونا حالانکہ ان کے جسم کا ہر حصہ اللہ کی راہ میں دشمن کے وار کا نشانہ بن چکا تھا۔اسی طرح غزوۂ تبوک میں مالی و معاشی مشکلات پر صبر و استقامت سے رہنا،نیز صحابیات کا اپنے بیٹوں کی شہادت پر صبر کرنا بلکہ خوش ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات جو تاریخ اسلام کے شاہکار ہیں سب اس حقیقت پر دلالت کناں ہیں کہ وہ توحید کو دل کی گہرائیوں سے جان چکے تھے اور اس کی عاقبت محمودہ پر ایمان رکھتے تھے یہی وہ حلاوۃ الایمان ہے جس کا ذکر صحیحین کی روایات میں موجود ہے کہ وہی شخص ایمان کی لذت کو پا سکتا ہے جو تین صفات کا حامل ہو،ان میں سے ایک صفت یہ ہے و یکرہ ان یعود فی الکفر بعد ان انقذہ الله منہ کما یکرہ ان یلقی فی النار جب اللہ نے اس کو کفر کی حالت سے نکال دیا تو وہ اس میں دوبارہ جانے کو اس طرح برا سمجھے جس طرح کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔(بحوالہ بخاری و مسلم)۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل و کرم سے اس سلسلہ کو ہمیشہ قائم رکھے اور اس باغ کو سرسبز و بارونق اور شاداں رکھے اور موحدین کے دل کو شادو آباد رکھے اور تا ابد الاباد توحید کی طرف دعوت کا چرچا باقی رہے۔ دل شاد بادمرادرہیں مہربان میرے آباد حشر تک رہیں سب قدردان میرے ابومحمد بدیع الدین شاہ رحمہ اللہ الراشدی السندی