کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 89
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بالکل جڑ سے اکھڑ کر باہر گر پڑے تھے،بلکہ مطلب یہ ہے کہ دانت کا کچھ حصے ٹوٹ گیا تھا۔اس واقعہ سے پتلا چلا کہ انبیاء علیہم السلام کو ابتلا و آزمائش کی کٹھن وادی سے گزرنا پڑا تاکہ وہ ان کے اجر میں اضافہ اور بلندئ درجات کا سبب بنیں۔اس لئے بھی ان کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا کہ ان کے ماننے والے ان کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ان کی مشکلات کو سامنے رکھ کر اپنی مشکلات کا اندازہ لگائیں اور اپنے آپ کو مشکلات کا عادی بنائیں کہ اس کے بغیر منزل مقصود تک پہنچنا ممکن نہیں۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’انبیاء علیہم السلام کے لئے دنیا میں مصائب و مشکلات سے گزرنا اس لئے بھی ضروری تھا تاکہ لوگ یہ جان لیں کہ انبیاء علیہم السلام بھی عام انسانوں کی طرح ہی ہوتے ہیں اور ان کو بھی اچانک تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس طرح کہ عام انسان کو،تاکہ لوگوں کو اس بات کا علم اور یقین ہو جائے کہ انبیاء مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہوتے بلکہ بشر اور مخلوقِ رب ہی ہوتے ہیں،اور وہ مافوق الفطرت معجزات و واقعات جو ان سے ظہور پذیر ہوتے ہیں ان کی وجہ سے لوگ شیطانی وساوس کی گرفت میں نہ آئیں جیسا کہ ابلیس نے یہود و نصاری کو اس میں مبتلا کر دیا تھا۔‘‘
ابن عطیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے اور تکلیف محسوس ہونے لگی تو کفارِ قریش کی فلاح و کامرانی سے مایوس ہو گئے اور زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل گئے کہ:’’کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ …‘‘ اسی مایوسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں،انجام کار میرے ہاتھ میں ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں۔اس لئے جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ہے اُسے ادا کرتے رہے اور دعا مانگتے رہیئے۔‘‘
و فیہ عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہ اَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ فِی الرَّکْعَۃِ الْاَخِیْرَۃِ مِنَ الْفَجْرِ اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَّ فُلَانًا بَعْدَ مَا یَقُوْلُ سَمِعَ اللهلِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمْدُ فَاَنْزَلَ اللّٰه لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ الایۃ
صحیح بخاری ہی میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں(جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے کھڑے ہوئے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہا)یہ فرماتے ہوئے سنا:’’اے اللہ! فلاں اور فلاں شخص پر لعنت فرما۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم)فیصلہ کے