کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 81
کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے خالق،مالک اورمعبودِ حقیقی کے علاوہ کسی صنم اور الہٰ کو نہ پکارنا کیونکہ وہ دُنیا اور آخرت میں نہ آ پ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں اور نہ آپ کا کچھ بگاڑ سکیں گے۔مطلب یہ ہے کہ ان سے کسی نفع کی توقع رکھ کر یا کسی تکلیف سے ڈر کر ان کی عبادت نہ کرنا۔ان کے اختیار میں نہ نفع ہے اور نہ ضرر۔اگر آپ سے بھی ایسا فعل سرزد ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کو پکارا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ اس مشرک گروہ میں سے ہوجائیں گے جو اپنی ذات پر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘
زیرِ بحث آیت کریمہ کی ہم معنیٰ اور ہم مطلب بہت سی آیات ہیں۔مثلاً:’’پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔‘‘(الشعراء:۲۱۳)۔’’اور اللہ کو سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو،اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔‘‘(القصص:۸۸)۔
ان دو آیات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ جس کو پکارا جائے گا وہ الٰہ قرار دیا جائے گا۔اور اُلوہیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔اس میں غیر اللہ کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔اِسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَا اِلٰہ اِلَّا الله۔یہی وہ توحید ہے جس کو واضح کرنے کیلئے اور لوگوں کے ذہنوں میں مرتسم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ شروع فرمایا اور کتابیں نازل فرمائیں۔اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ:’’اور ان کو اسکے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں،اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے۔(البینہ۔۵)۔اس آیت کریمہ سے اور اس قسم کی دوسری آیات سے یہ مسئلہ واضح ہوا کہ غیراللہ کو پکارنا کفر و شرک ہے۔
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ھُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّّحِیْمُ۔(یونس:۱۰۷)۔
اور اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتاہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ در گزر کرنے والا اور رحم فر مانے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ تنہا بادشاہ اور قہار ہے۔وہی بخشش اعلیٰ کا مالک اور وہی اس کو روک دینے والا ہے وہی نفع و نقصان پر قدرت رکھتا ہے اور جب یہ سب کچھ اس کے قبضہ و قدرت میں ہے تو اسی کو پکارنا چاہیئے اور اسی کی عبادت کرنا چاہیئے کیونکہ عبادت اسی کی ہو سکتی ہے جو مالک و قہار بھی ہو اور نفع ونقصان پہنچانے والا بھی ہو۔یہ