کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 80
کرنے اور حاجات کے پورا ہونے میں کچھ اثر اور قدرت حاصل ہے،جیسا کہ دَور جاہلیت کے عرب کہتے تھے یا آج اس دَور کے جہال صوفیاء کا عقیدہ ہے اور وہ ان کو پکارتے بھی ہیں۔یہ عقیدہ سراسر باطل اور منکرات میں سے ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ غیر اللہ میں سے اللہ کے کسی نبی یا ولی یا کسی روح کو کسی کرب ومصیبت کے دور کرنے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت حاصل ہے یا وہ کسی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا اس باب میں ان کو کوئی اثر و نفوذ حاصل ہے تو ایسا شخص جہالت کی خطرناک وادی میں گامزن ہے اور دوزخ کے کنارے کھڑا ہے۔ان کا یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’یہ صرف کرامات ہیں‘‘ تو اللہ تعا لیٰ کی ذات بے نیاز ہے کہ اس کے اولیاء میں اس قسم کی کوئی طاقت موجود ہو۔یہ تو اصنام و اوثان کے پچاریوں کاعقیدہ ہے،اس کی نشاندہی خود قرآن کریم نے کی ہے کہ وہ غیر اللہ کو صرف سفارشی اور صاحب کرامت سمجھتے تھے۔قرآن کے الفاظ یہ ہے کہ:ھٰوئُ لآئِ شُفَعَآئُ نَا عِنْدَاللّٰہ یعنی ’’یہ صرف ہمارے سفارشی ہیں‘‘(یونس:۱۸)۔’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں۔‘‘(الزمر:۳)۔کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنالوں؟ حالانکہ اگر اللہ رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں۔‘‘(یٰس۔۲۳)۔ اس بناء پر کسی نبی یا ولی کو نافع اور ضار خیال کرنا،جبکہ اس کے بس کی بات نہیں،اصلی اور حقیقی شرک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ذات میں مصیبت کو دُور کرنے کی قدرت و طاقت نہیں ہے اور نہ کسی میں نفع اور خیر پہنچانے کی قوت موثرہ موجود ہے،یہ سب طاقتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہیں۔باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ یہ ابدال،نقباء،اوتاد اور نجباء وغیرہ،لوگوں کے فریاد رس ہیں جو بااعتبار تعداد کے ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتے ہیں،تو جیسا کہ صاحب ’’سراج المریدین‘‘ نے لکھا ہے،یہ ان کا اِفک اور کذب بیانی ہے۔ وَ لَاتَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰه مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَ لاَ یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ(یونس:۱۰۶) اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہو گا۔ یہاں اگرچہ خطاب خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن عمومی طور پر پوری اُمت اس خطاب میں شامل ہے۔علامہ ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب