کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 44
محال ہے ممکن ہے کہ انسان روزہ کی نیت نہ کرے اور خفیہ طور پر کھاتا پیتا پھرے،جیسا کہ یہ ممکن ہے کہ انسان اپنی جنابت اور حدث دوسرے سے چھپا لے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان ظاہری اعمال کو بیان فرماتے جن کے تارک سے جنگ کی جاسکتی ہے اور اگر ان کا اقرار کرلے تو مسلمانوں میں شمار ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور زکوٰۃ پر اسلام کو موقوف رکھا اگرچہ روزہ بھی فرض تھا،جیسا کہ سورہ توبہ کی دو آیات ہیں۔اگرچہ یہ آیت فرضیت ِ روزہ کے بعد نازل ہوئی لیکن اس میں روزے کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اس کا تعلق باطن سے ہے،اور حج کا اس لئے ذکر نہیں کیا کہ اس کا وجوب خاص ہے،عام نہیں۔کیونکہ عمر بھر میں صرف ایک ہی دفعہ فرض ہے۔‘‘
ولھما عن سھل ابن سعد اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰه وَ رَسُوْلہُ وَ یُحِبُہُ اللّٰه وَ رَ سُوْلُہُ یَفْتَحِ اللّٰه عَلٰی یَدَیْہِ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوْکُوْنَ لَیْلَتَھُمْ اَیُّھُمْ یُعْطَاھَا فَلَمَّا اَصْبَحُوْا غَدَوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کُلُّھُمْ یَرْجُوْ اَنْ یُّعْطَاھَا فَقَالَ اَیْنَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ فَقِیْلَ ھُوَ یَشْتَکِیْ عَیْنَیْہِ فَاَرْسَلُوْا اِلَیْہِ فَاُتِیَ بِہٖ فَبَصَقَ فِیْ عَیْنَیْہ وَ دَعَا لَہُ فَبَرِاَ کَاَنْ لَّمْ یَکُنْ بِہٖ وَجَعٌ فَاَعْطَاہُ الرَّایَۃَ فَقَالَ اُنْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِھِمْ ثُمَّ ادْعُھُمْ اِلَی الْاِ سْلَامِ وَاَخْبِرْھُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْھِمْ مِّنْ حَقِّ اللّٰه تَعَالٰی فِیْہِ فَوَاللّٰه لَاَنْ یَّھْدِیَ اللّٰه بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمْرِ النِّعَمِ یَدُوکُوْنَ اَیْ یَخُوْ ضُوْنَ
صحیحین میں سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کل ایسے شخص کو پرچم دوں گا جو اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعا لیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں۔اس کے ہا تھ پر اللہ تعالیٰ خیبرکو فتح فرما دے گا،چنانچہ رات بھر صحا بہ رضی اللہ عنہم سوچتے رہے کہ پرچم کس کو دیا جائے گا؟ صبح کے وقت تمام صحابہ کرام،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے اور ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ پرچم اسے دیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کی کہ ان کی آنکھ درد کر رہی ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی۔چناچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اسی وقت اس طرح تندرست ہو گئے جیسے کہ ان کو کوئی دردہی نہ تھا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی رضی اللہ عنہ کو پرچم دیا اور فرمایا کہ مجاہدین کو لے کر فورًا نکل جاؤ اور خیبر میں جا کر دم لو۔اور پھر ان کو اسلام کی دعوت دینا۔اور اللہ تعالیٰ کے جو