کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 43
بعد سب سے بڑا کام جو ایک مسلمان کو کرنا چاہئے،وہ نماز کا ادا کرنا ہے۔گویا شہادتین کے اقرار کے بعد نماز سب سے بڑا فریضہ ہے۔اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے بعد زکوٰۃ کا درجہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ،امراء سے لے کر فقراء میں تقسیم کر دینی چاہئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراء کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ آٹھ مصارفِ زکوٰۃ میں ان کا حق مقدم اور موکد ہے بنسبت دوسرے مصارف کے۔ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ امام وقت ہی زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے،یا تو وہ خود وصول کرے یا اپنے کسی نائب کے ذریعے سے وصول کرے،جو شخص زکوٰۃ دینے سے انکار کرے اس سے زبردستی اور سختی سے وصول کی جاسکتی ہے۔مختلف اشیاء کو جمع کرکے ان کی زکوٰۃ اگر ایک ہی چیز سے نکال دی جائے تو ادا ہوجائیگی۔غنی اور غیر مولفۃ القلوب کافر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے مجنون اور بچے کے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ میں عامل کے لئے عمدہ اور نفیس جانور وصول کرنا حرام ہے اور زکوٰۃ دینے والے کو گھٹیا اور ردّی جانور دینا حرام ہے بلکہ درمیانے درجے کا مال ادا کرنا چاہئے۔ہاں زکوٰۃ دینے والا اگر خوشی سے عمدہ جانور پیش کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
مظلوم کی دعا کو روک دینے کے لئے ترک ظلم اور ادائے عدل کو سپر بناؤ۔کیونکہ عدل و انصاف اور ترک ظلم،یہ دو اعمال ایسے ہیں جن کے ذریعہ سے انسان دنیا اور آخرت کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عادل خواہ ایک ہی ہو اس کی بات قابل عمل اور حجت ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ امام وقت اپنے نائب کو زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیج سکتا ہے۔امام کو چاہئے کہ وہ اپنے عمال اور نائبین کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی وصیت کرے اور ان کو ضروری تعلیمات سے بہرہ ور کرے،ظلم سے بچے رہنے کی تاکید کرے،ظلم کے برے انجام سے ڈرائے۔اپنے نائب کو یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ تمام احکام بیک وقت نافذ نہ کئے جائیں بلکہ بتدریج اور آہستہ آہستہ نافذ کئے جائیں اور یہ کہ اہم معاملات اور بنیادی مسائل کو اولیت دے۔
نماز اور زکوٰۃ کے تارک پر تو اللہ تعالیٰ نے قتال کرنا ضروری ٹھہرایا ہے کیونکہ ان دونوں عبادتوں کا تعلق ظاہر سے ہے لہٰذا ان کو وضاحت سے بیان کیا گیا بخلاف روزے کے،روزے کا تعلق صرف باطن سے ہے،جیسے وضو اور غسل جنابت وغیرہ۔یہ ایسے اعمال ہیں جن پر صرف اعتماد کیا جاسکتا ہے،کسی دوسرے کو ظاہری طور پر ان کا علم