کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 335
ہے۔عرش پانی کے اوپر ہے اور عرش کے اوپر رب العالمین ہے۔اس کو طاقتور فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے اور یہ اللہ کے وہ فرشتے ہیں جو نشان دار ہیں۔
تمام اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ کریم اپنی ذات کے ساتھ عرش پر مستوی ہے اور اس کا عرش پر مستوی ہونا حقیقی ہے مجازی نہیں۔البتہ اُس کا علم ہر جگہ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا جس نے سب سے پہلے انکار کیا وہ جعد بن درہم تھا۔اُس نے جہاں استوی علی العرش کا انکار کیا وہاں تمام صفات کا بھی انکار کیا ہے۔اس بد عقیدہ شخص کو خالد بن عبداللہ القسری نے قتل کر دیا تھا۔یہ واقعہ بہت مشہور ہے۔جعد بن درہم کے عقیدۂ بد کو جہم بن صفوان نے پروان چڑھایا جس کو فرقہء جہمیہ کا امام کہا جاتا تھا۔اس نے اس عقیدہ کی خوب تشہیر کی۔اور متشابہ آیات سے استدلال کر کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا۔جہم بن صفوان تابعین کے آخری دور میں ہوا ہے۔اس کے اس بد عقیدہ کی تردید میں اِس دور کے جید علماء کرام اور ائمہ نے کی۔امام اوزاعی،امام ابوحنیفہ،امام مالک،لیث بن سعد ثور،حماد بن زیر،حماد بن سلمہ،ابن المبارک رحمہم اللہ تعالیٰ۔اور ان کے بعد کے آئمہ ہدیٰ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے جو زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اتنے ہیں کہ جن کی تردید ممکن نہیں ہے۔دلائل معلوم ہو جانے کے بعد جو شخص انکار کرے اُسے کافر قررا دیا جائے گا البتہ دلائل معلوم ہونے سے پہلے ایسے شخص کو اُس کی جہالت کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا۔ہم ان تمام صفات کو ثابت کرتے ہیں اور تشبیہ کی تردید کرتے ہیں جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے تشبیہ کی تردید فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی مثل کوئی نہیں۔اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
فیہ مسائل
٭ اس حدیث میں جن علوم کا ذکر کیا گیا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور کے یہودیوں میں موجود تھے،اسی لئے نہ تو اُنہوں نے اِن کی تاویل کی اور نہ انہیں جھٹلایا۔٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب یہودی عالم نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور اس کی مزید تصدیق کے لئے