کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 332
مقابلہ کیا اور بڑی بڑی کتابیں لکھ کر ان کے شبہات کی تردید کا حق ادا کر دیا۔یہ کتب آج تک اہل سنت کے ہاں معروف اور متداول ہیں۔فجزاھم الله احسن الجزاء۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے بطریق یونس روایت کی ہے جس میں ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد محترم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ساتوں آسمان کرسی کے مقابلہ میں اُن سات درہموں کے برابر ہیں جو کسی ڈھال میں ڈال دیئے گئے ہوں۔‘‘ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:’’اللہ تعالیٰ کی کرسی،عرش کے مقابلے میں ایک لوہے کے چھلے کی طرح ہے جسے کسی چٹیل میدان میں پھینک دیا گیا ہو۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ پہلے اور اُس کے آگے والے آسمان کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔اور ہر آسمان کے درمیان پانچ پانچ سو سال کی مسافت ہے۔اور ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔اور عرش پانی کے اوپر ہے اور اللہ کریم عرش کے اوپر ہے۔تمہارے اعمال میں سے کوئی شے اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِن دونوں کے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ ہے۔اور ہرآسمان سے دُوسرے آسمان تک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو برس کی مسافت کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ساتویں آسمان اور عرش کے درمیان ایک سمندر ہے،اُس کے نچلے اور اُوپر کے حصے کا فاصلہ وہی ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔اور اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہے اور اعمالِ بنی آدم میں سے کوئی عمل اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کتاب اللہ اِبتدا سے انتہا تک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین عظام اور تمام ائمہ کا کلام اس سے بھرا پڑا ہے کہ ربِّ کریم ہر چیز سے بلند ہے اور یہ کہ وہ آسمانوں اور زمینوں سے اوپر عرش پر ہے۔جیسا کہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات اس پر شاہد ہیں:(ترجمہ)’’اُس کے ہاں جو چیز اُوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اور عمل صالح اس کو اُوپر چڑھاتا ہے‘‘(الفاطر:۱۰)۔’’اے عیسیٰ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا۔‘‘(آل عمران:۵۵)۔’’بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘(النساء:۱۵۸)۔’’عروج کے زینوں کا مالک