کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 33
آج رات ستارے کو ٹوٹتے ہوئے تم میں سے کس نے دیکھاہے؟ حصین نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے۔پھر کہنے لگے کہ میں نماز میں مشغول نہ تھا بلکہ مجھے کسی چیز نے کاٹ کھایا تھا جس کی مجھے سخت تکلیف تھی۔انہوں نے کہا پھر تم نے کیا کِیا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے جھاڑ پھونک سے کام لیا۔انہوں نے کہا یہ کیوں کیا؟ میں نے کہا شعبی سے مروی ایک حدیث کی بناء پر۔انہوں نے پوچھا وہ کیا حدیث ہے جو انہوں نے بیان کی ہے؟ میں نے کہاہم سے بریدہ بن الحصیب رحمہ اللہ نے حدیث بیان کی کہ نظر بد اور کسی زہریلی چیز کے کاٹ کھانے کے سوا اور کہیں جھاڑ پھونک یا دم مفید نہیں۔انہوں نے کہا جس شخص نے جو سنا اسی پر اکتفا کیا اور اسی پر عمل پیرا رہا تو اس نے بہت اچھا کیا۔لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ:مجھے بہت سی اُمتیں دکھائی گئیں۔میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ تو بہت بڑی جماعت ہے اور کسی نبی کے ساتھ صرف ایک یا دو ہی آدمی ہیں اور ایسے نبی کو بھی دیکھا جس کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔اچانک میرے سامنے ایک انبوہ ِ کثیر آیا،میں نے خیال کیا کہ کہ میری امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ سیدنا مُوسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔اس کے بعد میں نے ایک بہت ہی بڑے انبوہ کو دیکھا،مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہے اور آپ کی امت میں ستر ہزار افراد وہ ہیں جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔یہ واقعات سُناکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپس میں ان ستر ہزار افراد کے بارے میں قیاس آرایئاں کرنے لگے۔بعض کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔بعض صحابہ ِ کرام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا،اس کے علاوہ صحابہ ِ کرام رضی اللہ عنہم نے اور توجیہات بھی کیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ وہ افراد ہوں گے جو دَم نہیں کرواتے۔اور نہ وہ اپنے جسموں کو داغنے کے قائل ہیں۔اور نہ وہ فال لیتے ہیں اور وہ اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔عکاشہ بن محصن نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں سے کردے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ان میں سے ہی ہے۔اس کے بعد ایک دوسرے صحابی نے عرض کیا کہ میرے لئے بھی دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے عکاشہ رضی اللہ عنہ بازی لے گیا۔
حدیث مبارک کے ان الفاظ سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو کثرت تعداد کو صحت مذہب کی دلیل