کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 255
تعالیٰ کی توحید،اس کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنے اوپر لازم قرار دے لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی توحیدکا انکار یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد برپا ہو جاتا ہے،قحط سالی کا دور دورہ ہوتا ہے اور خصوصاً دشمن اسلام مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔‘‘ زیرنظر آیت کریمہ کا ترجمۃ الباب والی آیت سے تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر دوسروں سے فیصلہ کروانا تمام گناہوں سے بدترین گناہ ہے جو حقیقی طور پر فساد فی الارض ہے۔اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان اپنے تمام متنازع فیہ مسائل میں صرف کتاب و سنت کی طرف رجوع کرے۔تمام مومنین کا یہی طریقہ اور دستور رہا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(ترجمہ)’’اور جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حال یہ کہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔‘‘(النسا:۱۱۵)۔ اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰه حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوْقِنُوْنَ(المائدۃ:۵۰) (اگر یہ اللہ کے قانون سے منہ موڑتے ہیں)تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔ زیر نظر آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی تردید کرتا ہے جو اس کے ان احکامات سے اعراض کرتے ہیں جن میں خیر ہی خیر ہے جن میں ہر قسم کے شر سے روکا گیا ہے اور ایسی آرا،اقوال اور اصطلاحات کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کو ان لوگوں نے وضع کیا ہے جو شریعت اسلامیہ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں جیسے تاتاریوں نے چنگیز خان کی تقلید اور اس کی آراء کے مطابق فیصلے کرنے شروع کر دیئے۔چنگیز خان نے یاسق کے نام سے ایک دستور مرتب کیا جو حقیقت میں مختلف مذاہب مثلاً یہودیت و نصرانیت اور ملت اسلامیہ سے مقتبس تھا اور اس انتخاب میں بھی اس نے اپنی خواہشات اور ذاتی نظریہ کو ملحوظ رکھا یہ ایسا مجموعہ ہے جسے اس کے پیروکار کتاب و سنت پر مقدم قرار دیتے ہیں اور اس کو مقدس سمجھتے ہیں۔پس جو شخص ایسے فعل کا مرتکب ہو گا وہ کافر ہے جس سے اس وقت تک جنگ کی جائے گی جب تک کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع نہ کر لے اور معمولی سے معمولی اور بڑے سے بڑے تنازع میں کتاب و سنت کو حکم نہ مان لے۔‘‘