کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 253
تھی۔مقلدین کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ نصوصِ کتاب و سنت کے مقابلے میں آئمہ کے اقوال کو پیش کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ قواعد شرعیہ ہی ایسے قواعد ہیں جن پر کلی اعتماد کیا جا سکتا ہے اور ان کے بغیر کسی اور چیز پر فتویٰ صادر کرنا قرین صحت نہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ سنت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع کی حیثیت ایک اجنبی اور مسافر کی سی ہو کر رہ گئی ہے ایسے شخص کو اس دَور میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کتاب و سنت سے روگرداں ہے اور اکثر مقامات پر ان دو بنیادی نصوصِ شرعیہ پر عمل متروک ہو چکا ہے۔(واللہ المستعان)۔ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(البقرۃ:۱۱) جب کبھی اُن سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو اُنہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی پر اُکساتا ہے تو گویا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور زمین و آسمان میں اِصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(ترجمہ)’’ان بھائیوں نے کہا:اللہ کی قسم! تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں‘‘(یوسف:۷۳)۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر نافرمانی فساد فی الارض ہے۔زیر نظر آیت کریمہ کا باب سے تعلق یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ سے فیصلہ کروانا منافقین کا کام ہے جو درحقیقت فساد فی الارض ہے۔پیش نظر آیت کریمہ میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ خواہشات کے بندوں کے اقوال سے ہوشیار اور چوکس رہنا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ اپنے دعوؤں کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اہل خواہش کے فریب سے بھی ہوشیار رہنا چاہیئے جب تک کہ وہ اپنی بات کی دلیل کتاب و سنت سے پیش نہ کریں۔کیونکہ اُن کی یہ عادت ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے میں مہارت رکھتے ہیں۔فساد فی الارض کی اس سے بڑی اور کیا صورت ہو سکتی ہے۔فساد فی الارض سے خود بخود ایسے اُمور مرتب ہوتے ہیں جن سے انسان دائرہ حق سے باہر نکل کر باطل کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔