کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 235
عمل صالح انجام دے مگر نیت میں رِیاکاری اور لوگوں کو دکھلاوا ہو،آخرت میں کامیابی مد نظر نہ ہو۔٭تیسری صورت یہ ہے کہ انسان اعمالِ صالحہ کی بجاآوری سے دنیاوی مال و متاع کا خواہشمند ہو،جیسے سفر حج میں مال و متاع حاصل کرنا مقصود ہو،یا دنیا کے حصول کی خاطر،یا کسی عورت سے شادی رچانے کی غرض سے ہجرت کرے یا مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لئے جہاد جیسے حولِ عظیم میں جان خطرہ میں ڈال دے یا دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض یہ ہو کہ بال بچوں کا پیٹ پال سکے،یا قرآن کریم حفظ کر کے کسی مسجد کی امامت کا خواہشمند ہو،جس سے اسے اچھی خاصی تنخواہ ملنے کی توقع ہو،جیسا کہ آج کل علمائے کرام اور ائمہ مساجد کا دستور ہے۔٭ چوتھی قسم یہ ہے کہ عمل صالح تو رضائے الٰہی کے لئے کرے،لیکن ان اعمالِ حسنہ کے ساتھ ساتھ ایسا عمل بھی کر رہا ہو جس سے وہ دین اسلام سے خارج سمجھا جائے گا جیسے یہود و نصاریٰ کا عبادتِ الٰہی کرنا،ان کا روزے رکھنا،ان کا صدقہ و خیرات کرنا جس سے ان کی اصل مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کر لیں اور آخرت میں کامران ہو جائیں۔یا اسلام کا دعویٰ کرنے والے وہ افراد جو کفر و شرک میں مبتلا ہیں جس سے انسان دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہو جاتا ہے۔اگر یہ لوگ کوئی ایسا عمل صالح کریں جس سے آخرت کے عذاب سے نجات اور اللہ کی رضا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کے کفر و شرک میں ملوث اعمال کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال بھی برباد ہو رہے ہیں۔
سلف صالحین رحمہم اللہ اس قسم کے اعمال سے بہت ڈرا کرتے تھے جن کی وجہ سے صحیح اور درست اعمال بھی ضائع ہو جائیں۔ایک بزرگ کا قول مشہور ہے:’’اگر مجھے علم ہو جائے کہ میرا صرف ایک سجدہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا ہے تو میں موت کی آرزو کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ صرف متقین ہی کے اعمال قبول فرماتا ہے۔‘‘ ٭پانچویں اور آخری قسم یہ ہے کہ انسان پانچوں نمازوں کی پابندی،روزہ،حج،زکوۃ اور صدقہ و خیرات اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے اور آخرت میں اجر و ثواب کا متمنی ہوتا ہے اس کے بعد کچھ ایسے اعمال کرتا ہے جن سے دنیا کا مال و متاع حاصل کرنا مقصود ہو،جیسے فرض حج ادا کرنے کے بعد نفلی حج کرتا ہے جس سے دنیا کمانا مقصود ہو جیسا کہ اکثر لوگ آج کل کر رہے ہیں تو اس عمل پر اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔بعض علمائے کرام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم تین قسم کے لوگوں کا حال بیان کرتا ہے:۱۔اہل جنت،۲۔اہل جہنم کا۔اور۔۳۔تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جن میں دونوں صفتیں پائی جاتی ہیں،ان کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے۔اس تیسری قسم میں مذکورہ بالا پانچویں قسم شامل ہے۔‘‘