کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 234
اے رب کریم میں نے تمام دن اور رات تلاوت کرتا رہتا تھا اللہ تعالیٰ کہے گا،تو جھوٹ بولتا ہے۔فرشتے بھی یہی کہیں گے،تو جھوٹ بولتا ہے۔اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تو اس لئے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں وہ دُنیا میں کہا جا چکا۔مالدار شخص کو پیش کیا جائے گا اور سوال ہو گا،کیا تم کو اتنی وسعت مال نہ دی گئی کہ تو کسی کا محتاج نہ رہا؟ وہ جواب دے گا اے اللہ تو بالکل ٹھیک اور صحیح کہتا ہے! اللہ تعالیٰ پوچھے گا،جو کچھ تم کو ملا اُس کے مطابق عمل کیسا کیا؟ بندہ جواب دے گا کہ اے رب کریم! میں صلہ رحمی کرتا اور صدقہ دیتا رہا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا،تم جھوٹ کہتے ہو۔فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔اللہ تعالیٰ کہے گا تمہارا ارادہ یہ تھا کہ تمہیں سخی کہا جائے چنانچہ یہ دنیا میں کہا جا چکا۔اب اس شخص کوپیش کیا جائے گا جو اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا۔اللہ کریم پوچھے گا،تم کیوں قتل ہوئے؟ بندہ جواب دے گا،اے رب کریم! تو نے جہاد کا حکم دیا اور میں تیرے راستہ میں دین کے دُشمنوں سے لڑ کر شہید ہو گیا۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا،تو جھوٹ بولتا ہے۔فرشتے بھی کہیں گے تو جھوٹ بولتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرا ارادہ یہ تھاکہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور وہ کہا جا چکا۔یہ واقعہ بیان فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا:اے ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)یہی وہ تین قسم کے افراد ہیں جن کو قیامت کے دِن سب سے پہلے جہنم کی آگ جلائے گی۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ سے زیر نظر آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی،جن کا خلاصہ ہم قارئین کریم کے سامنے پیش کرتے ہیں؛ آپ نے فرمایا:’’سلف سے کچھ اعمال ایسے منقول ہیں جن پر عوام عمل کرتے ہیں مگر ان کا مطلب اور مفہوم نہیں سمجھتے مثلاً:٭ جب ایک شخص کوئی عمل صالح اللہ کی رضا کے لئے انجام دیتا ہے جیسے صدقہ و خیرات،روزہ،نماز،رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور اُن سے حسن سلوک،یا کسی پر ظلم کرنے سے رُک گیا۔علی ھٰذا القیاس بہت سے اعمالِ حسنہ کرتا ہے لیکن ان اعمال کی بجا آوری میں آخرت کے اجر و ثواب کا متمنی نہیں ہوتا بلکہ چاہتا ہے کہ دُنیا میں ہی اُسے اس کا بدلہ مل جائے جیسے کہ وہ اپنے مال و متاع کی حفاظت کا خواہشمند ہو،اس میں اضافے کا طلبگار ہو،اپنے اہل و عیال کی عزت و آبرو،ان کی حفاظت ذہن میں ہو اور چاہتا ہو کہ وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کریں،ان اعمالِ حسنہ سے نہ تو وہ جنت کا طلبگار ہو اور نہ جہنم کے عذاب سے بچنے کی تمنا ہو۔پس ایسے شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں چکا دیا جاتا ہے۔اور آخرت میں اس کا قطعاً کوئی حصہ نہ ہو گا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس نوع کا ذکر فرمایا ہے۔٭دوسری قسم پہلی قسم سے زیادہ خطرناک ہے،وہ یہ کہ انسان