کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 219
ہاں تو کوئی چیز بھی مشکل نہیں وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس تعجب خیز جملہ کو سن کر فرشتوں نے کہا:’’ہم تمہیں برحق بشارت دے رہے ہیں۔‘‘ ہم نے جو خوشخبری دی ہے اُس میں شک و شبہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو پھر کوئی چیز درمیان میں حائل اور رکاوٹ نہیں بن سکتی۔اس لئے ’’تم مایوس نہ ہو۔‘‘ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا:’’اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نااُمید ہوتے ہیں جو گمراہ ہوں۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی رحمت کی وسعتوں کو خوب جانتے اور سمجھتے تھے لیکن اُنہوں نے صرف تعجب اور حیرت سے فرمایا تھا ’’کیا تم اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دیتے ہو۔‘‘ الضَّالُّوْنَ کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں:۱۔وہ لوگ جو صراط مستقیم کو چھوڑ کر شیطان کی بتائی ہوئی غلط راہ پر چلے جا رہے ہوں۔۲۔دوسرا معنی یہ ہے کہ کافر ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔دوسرے معنی کی تائید مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے:(ترجمہ)’’اللہ کی رحمت سے سوائے کافروں کے کوئی نااُمید نہیں ہوتا۔‘‘ عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم سُئِلَ عَنِ الْکَبَآئِرِ فَقَالَ الشِّرْکُ بِاللّٰه وَ الْیَاْسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰه وَ الْاَمْنُ مِنْ مَّکْرِ اللّٰه سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کون کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:۱۔اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔۲۔اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا۔۳۔اور اللہ کی گرفت سے بے خوف رہنا۔(کبیرہ گناہ ہیں)۔ تمام کبیرہ گناہوں میں شرک سب سے کبیرہ گناہ ہے۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا توحید ربوبیت کو ختم کرنے،توحید الوہیت کو ناقص قرار دینے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوئِ ظن کے مترادف ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بالکل سچ فرمایا اور اپنی مخلوق کی خیرخواہی کے لئے فرمایا:(ترجمہ)’’اللہ تعالیٰ کے منکر اوروں کو اللہ کے برابر کرتے ہیں۔‘‘(الانعام:۱)۔اور سورۃ لقمان میں فرمایا:(ترجمہ)اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔‘‘ لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر شرک جیسے گناہ کو بغیر توبہ کئے اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا۔ جن اُمور کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا جاتا ہے اور جن اُمور کی توقع کی جاتی ہے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے اُمید اور توقع ختم کر لینا نااُمیدی کہلاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوء ظن کی بدترین مثال