کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 211
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام،تبع تابعین اور تمام اہل سنت نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتاہے۔سیدنا عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ صحابی فرماتے ہیں:’’ایمان بڑھتا گھٹتا ہے۔ان سے سوال کیا گیا کیسے بڑھتا گھٹتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جب ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں تو ایمان کا یہی بڑھنا ہے۔اور جب ہم غفلت کرتے یا بھول جاتے یا اس کے احکام کو ضائع کردیتے ہیں تو یہ ایمان کا کم ہوناہے۔(ابن سعد)۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور اسکا قول و عمل سے پتا چلتا ہے‘‘(ابن ابی حاتم) امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اورابو عبید رحمہ اللہ نے ایمان کے بڑھنے گھٹنے پراجماعِ اُمت بیان کیا ہے۔ قولہٗ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ یعنی مومنین کی صفات یہ ہیں:وہ دل سے اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں۔اپنے تمام دینی اور دنیاوی امور کو اللہ ہی کی طرف سونپ دیتے ہیں۔٭ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتے۔٭ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مقصود سمجھتے ہیں۔٭ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رغبت کرتے ہیں۔٭مومنین کو یہ یقین ہے کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے گا وہی ہوگا۔٭ اور جو اس کی مشیت کے خلاف ہے اس کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔٭اللہ تعالیٰ اپنی مملکت میں واحد متصرف ہے۔٭اور وہی اکیلا معبودِ حقیقی ہے۔ زیر نظر آیت کریمہ میں مخلص مومنین کے خاص طور پر تین اعلیٰ مقام بتائے گئے ہیں اور تین علامات بیان کی گئی ہیں۔(۱)۔خوفِ الٰہی۔(۲)۔ایمان میں اضافہ۔(۳)۔اور صرف اللہ تعالیٰ پر توکل۔یہ تین مقامات ایسے ہیں جن سے ایمان کامل ہوتا ہے۔ظاہری اور باطنی اعمال انسان سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جیسے۔ نماز:جو شخص نماز قائم کرے،اس کی حفاظت بھی کرے۔اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتا رہے تو اس عمل صالح کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ دوسرے واجبات پر بھی عمل کرے گا اور محرکات کو چھوڑ دے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’نماز ہر برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بلند و بالا ہے۔(العنکبوت:۴۵) قول اللّٰه تعالیٰ یٰٓأَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰه وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤُمِنِیْنَ(الانفال:۶۴)۔ اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! تمہارے لیے اور اہل ایمان کے لئے تو بس اللہ کافی ہے۔