کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 204
ان کے ذریعہ سے نعمت عطافرمائی ہے اس کے بدلے میں یا تو دُعائے خیر کی جائے یا اس کا کوئی بہتربدلہ دینے کی کوشش کی جائے۔جیسا کہ ایک حدیث میں ایا ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اس کا بدلہ چکاؤ اگر بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لئے اتنی دعا کرو کہ تمہیں یقین ہوجائے کہ تم نے بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘(ابوداؤد،نسائی)۔اچھے اور معروف عمل کو لوگوں کی طرف اس لحاظ سے منسوب کرنا کہ یہ ذریعہ اور سبب بنے ہیں درست ہے لیکن حقیقت میں یہ اچھا عمل اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے وجود میں ایاہے۔
وَ أَنْ تَذُمَّھُمْ عَلٰی مَا لَمْ یُؤْتِکَ اللّٰه اِنْ رِزَقَ اللّٰه لَا یَجُرُّہٗ حِرْصُ حَرِیْصٍ وَ لَا یَرُدُّہٗ کَرَاھِیَۃ کَارِہٍ ـ
اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے نہیں دی اس کی وجہ سے لوگوں کی مذمت کرے۔یاد رکھو،کہ اللہ تعالیٰ کے رزق کو نہ کسی حریص کی حرص لاسکتی ہے اور نہ کسی ناپسند کرنے والے کی ناپسندیدگی اسے روک سکتی ہے۔
کیونکہ جو چیز تو ان سے طلب کرتا ہے وہ تیرے لئے مقدر نہیں ہے۔جو چیز تم نے کسی سے مانگی تھی اگر وہ تیرے مقدر میں ہوتی تو تجھے ضرور مل جاتی۔پس جو شخص یہ سمجھ لے کہ:(۱)۔رزق دینے والا۔(۲)۔رزق میں تنگی کرنے والا۔(۳)۔اسباب اور بغیر اسباب کے رزق مہیا کرنے والا۔اور بعض اوقات ایسی جگہ سے رزق عطا فرمانے والا جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو،صرف اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے،تو ایسا شخص کسی کی نہ تعریف کرے گا اور نہ مذمت بلکہ اپنے دین و دنیا کے تمام اُمور صرف اللہ تعالیٰ کو سونپ دے گا۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اس حدیث میں لفظِ یقین اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت،اور ان انعامات کو جو وہ اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا فرمائے گا،شامل ہے۔نیز یہ لفظ اللہ کی تقدیر اور اس کی تدابیر کو بھی شامل ہے۔لہٰذا جو شخص اللہ کریم کو ناراض کرکے اور اس کے احکام کی مخالفت کرکے مخلوق الٰہی کو راضی کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ایسے شخص کو اللہ کے رزاق ہونے اور اس کے وعدے پر ایمان اور یقین نہیں ہے۔انسان یہ رویہ اس وقت اختیار کرتا ہے جب وہ لوگوں کے پاس مختلف