کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 202
اوربالکل برباد ہوگئے۔اس ذہن کے حامل لوگ حماقت اور بے وقوفی کا شکار اس طرح ہوگئے کہ گرمی سے بچاؤکی خاطر آگ میں چھلانگ لگادی…چند لمحوں کی تکلیف برداشت کرنے سے تو انکارکردیا لیکن دائمی عذاب کو دعوت دے دی۔ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو غلبہ اور کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے،تو یہ شخص فوراً بول اٹھتا ہے کہ میں تو تمہارے ہی ساتھ تھا لیکن ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو کیسے دھوکادے سکتاہے؟ وہ اس کے نفاق سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کے دل کی دھڑکنوں سے واقف ہے۔
اس آیت کریمہ میں فرقہ مرجۂ اور کرامیہ کی تردید بھی ہوگئی۔تردید کی صورت یہ ہے کہ جو لوگ صرف زبانی ایمان لائے اور مشکلات پر صبرنہ کیا۔کیونکہ فقط قول اور تصدیق بغیرعمل کے نفع مند نہیں ہوتے۔شرعی ایمان اس وقت تک صحیح نہیں قرارپاتاجب تک مندرجہ ذیل تین باتیں انسان کے اندرجمع نہ ہوں۔۱۔دل سے تصدیق اور اس پرکاربندرہنا۔۲۔زبان سے اقرار۔۳۔اور اعضاء سے اس پر عمل کرنا۔سلفِ اُمت اور اہلِ سنت کا یہی مسلک اور یہی عقیدہ ہے۔واللہ اعلم۔اس آیت سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوا کہ سچی بات کرنے میں مخلوق کی مداہنت سے بچنا چاہیئے اور بچے گاوہی جسے اللہ بچائے۔
وَعَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللّٰه عنہ مَرْفُوْعًا اِنَّ مِنْ ضَعْفِ الْیَقِیْنِ أَنْ تُرْضِیَ النَّاسَ بِسَخَطِ اللّٰه وَأَنْ تَحْمَدَھُمْ عَلٰی رِزْقِ اللّٰه ـ
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی کمزوری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر لوگوں کی تعریف کرے۔
ضعف،کمزوری کو کہتے ہیں۔اور یقین کامل ایمان کا دوسرا نام ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’یقین پورا ایمان ہے اور صبر آدھا۔‘‘ اس روایت کو ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں،اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب الزھد میں سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔