کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 201
ہے اسے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے،کبھی اپنوں سے اور کبھی غیروں سے۔بطور مثال کے ایک دین دار اور متقی شخص ہی کو لے لیجئے۔جو فاسق و فاجر اور ظالم قوم میں زندگی گزار رہا ہو۔ایساشخص ان کے ظلم و ستم سے ہرگزنہیں بچ سکتاالبتہ اگر ان کی موافقت کرلے یا خاموشی اختیار کر لے ابتداء ً تو ان کے ظلم و ستم سے محفوظ رہے گا لیکن بالآخر یہ شخص ان کے جس ظلم اور زیادتی سے بچنا چاہتا تھا اس کا شکارہوکررہے گا۔اور اگر بالفرض ان کے شرسے محفوظ بھی رہے تو دوسرے لوگوں کے ظلم کا نشانہ بنے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد گرامی کو جو انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا،مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور حرزجان بنالینا چاہیئے۔سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’جو شخص لوگوں کو ناراض کرکے اللہ کو راضی کرلے تو اس کی تمام ضروریات کا اللہ تعالیٰ خود کفیل ہوجاتا ہے۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک اس کی کفایت نہ کر سکیں گے۔‘‘(ترمذی)پس جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے،بھلائی و کامیابی کا راستہ اس کے سامنے ظاہرکردے اور مخالفین کے شرسے اس کو محفوظ رکھے تو وہ محرمات میں ان کی موافقت نہیں کرے گا اور ان ظالموں کے ظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتاچلاجائے گا۔یہاں تک کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی اس کے قدم چوم لے گی۔جیساکہ انبیاء اور ان کی اتباع کرنے والوں کے ساتھ ہوتا چلاآیاہے۔ مذکورۃ الصدر دو قسم کے لوگوں کے علاوہ ایک شخص وہ بھی ہے جو بے بصیرتی اور کم عقلی کی بنا پر ایمان کا دعویدار بن بیٹھاہو اگر کسی وقت کسی مصیبت اور مشکل میں پھنس جائے تو اسے وہ ایک فتنہ سمجھتا ہے۔فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس آزمائش اور تکلیف کو جو بہرحال انبیاء اور ان کے فرمانبرداروں کو مخالفین کی طرف سے پہنچتی ہے،ایک عذاب سمجھتاہے۔اس فتنہ کی وجہ سے وہ ایمان سے بھاگتاہے اور اس سبب کوچھوڑدیتاہے جس سے یہ مصیبت دور ہو،جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کہ مومن ایمان لاکراس سے خلاصی چاہتے ہیں۔ صاحبِ بصیرت،اور خالص مومن تو عذابِ الٰہی سے ڈرکرایمان کی طرف لپکے اور دوڑے اور عارضی مصائب کو برداشت کرنے کے لئے سینہ سپرہوگئے۔ اور یہ کم عقل اور بے بصیرت لوگ انبیائے کرام کے دشمنوں کی عارضی تکلیف سے بچنے کے لئے ان کی موافقت کرنے پر رضا مند ہوگئے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے،ان کی عارضی تکلیف اور جلد ختم ہوجانے والی مصیبت سے بھاگے اور عذابِ الہٰی کی طرف چل پڑے۔لوگوں کی آزمائش اور فتنہ کو عذابِ الٰہی سمجھ بیٹھے