کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 199
ہے۔ ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’تعظیم غیراللہ،عبادتِ غیراللہ اور اطاعت غیراللہ،سے ڈرنا مراد ہے کیونکہ انسان فطرتاً دنیوی خطرات سے ڈرجاتاہے۔پس اسے چاہیے کہ وہ تمام امور میں قضا و قدر اور اس کے تصرفات سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتارہے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’خوف دل کی عبادت ہے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص رہنی چاہیئے۔وہ اعمال جن کا تعلق صرف دل سے ہے،درج ذیل ہیں:عاجزی،رجوع،محبت،توکل اور امید۔‘‘ قولہٗ فَعَسٰیٓ أُولٰٓئِکَ أَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ابن ابی طلحہ،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کا ترجمہ یوں نقل کرتے ہیں کہ:’’یہی لوگ ہدایت پرہیں۔‘‘ قرآن میں جہاں بھی عسیٰ کا لفظ آیا ہے اس کا واقع ہونا لازمی ہے۔ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد میں آتاجاتارہتاہے تو اس کے ایمان دار ہونے کی شہادت دو۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت کومانیں۔(رورہ احمد،والترمذی،والحاکم،عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ) قول اللّٰه تعالیٰ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰه فَإِذَآ أُوْذِیَ فِی اللّٰه جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰه(العنکبوت:۱۰) لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر،مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس جھٹلانے والی قوم کی صفات بیان کی ہیں جو صرف زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔لیکن ان کے دل ایمان کی دولت سے بالکل خالی ہیں۔دنیا میں جب ایسے لوگ مصائب و مشکلات اور محنت و مشقت میں پڑجاتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان پراللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہواہے۔چنانچہ یہ لوگ مُرتد ہوجاتے ہیں۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کا ترجمہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ:’’ایسے افراد کو جب معمولی سی محنت و مشقت سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو وہ ارتداد کے فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ کریم نے جب سے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا ہے اس