کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 198
جال میں آجاؤ۔علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ تمام مفسرین کے نزدیک اس آیت کا یہی معنی ہے کہ شیطان اپنے ساتھیوں سے مسلمانوں کو ڈراتا اور دھمکاتاہے۔‘‘ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،آیت کا معنی یہ ہے کہ:’’مسلمانوں کے دلوں میں ابلیس اپنے لشکر کے بہت عظیم اور بھاری ہونے کا وسوسہ پیداکرتاہے۔اگرانسان کا ایمان قوی اور مضبوط ہوگا تو یہ خوف اس کے دل میں پیدا نہیں ہو گا۔اور اگر کوئی کمزورایمان والاشخص ہے تو ڈر جائے گا۔‘‘ پس اس آیت سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور خوف کھانا کامل ایمان کی شروط میں سب سے بڑی شرط ہے۔ قول اللّٰه تعالیٰ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰه مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰه وَ الْیَوْمِ الأٰخِرِ وَ أَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ أٰتَی الزَّکوٰۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلاَّ اللّٰه فَعَسٰیٓ أُولٰٓئِکَ أَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ(التوبۃ:۱۸) اللہ کی مسجدوں کوآباد کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر کومانیں اور نمازقائم کریں،زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ان ہی سے توقع ہے کہ یہ سیدھی راہ پر چلیں گے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ تعمیر مساجد میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان کی دولت و دیعت کی گئی ہے اور ان کا آخرت پر یقین کامل ہے۔ان کا ایمان دل کے ہر گوشے میں پیوست ہوتاہے،وہ ظاہری اعضا سے اعمالِ صالحہ انجام دیتے ہیں اور کسی طاغوتی قوت سے نہیں ڈرتے۔ان ہی صفات کے حامل لوگوں سے تعمیر مساجد کا عمل معرضِ ظہور میں اتاہے اور مشرک اس عمل سے دوربھاگتے ہیں تعمیر مساجد میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع،اور اعمالِ صالحہ کی روح کار فرما ہوتی ہے۔اگر کبھی مشرکین کے ہاتھوں سے ایسا عمل ظاہر ہوجائے تو اس کی حیثیت ایسے ہوتی ہے جیسے:(ترجمہ)’’دشتِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔‘‘(النور:۳۹)یاان کے اعمال کی مثال:(ترجمہ)’’اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑادیاہو۔(ابراہیم:۱۸) جن بدنصیب لوگوں کے اعمال کی حیثیت بطور نتیجہ کے یہ ہو،اس سے تو بہتریہ ہے کہ عمل کیا ہی نہ جائے۔پس تعمیر مساجد جیسا عظیم الشان عمل جس کا تعلق توحید خالص اور عملِ صالح سے ہے اور شرک وبدعت کی ملاوٹ سے یہ عمل بالکل پاک و صاف ہے،وہ ایمان مطلق میں داخل ہے۔اہل سنت و الجماعۃ کا یہی عقیدہ