کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 192
اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں سے عداوت اور اُن سے جہاد،تو یہ بھی حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو گا۔جس قدر اللہ تعالیٰ کی محبت دِل میں قوی اور مضبوط ہو گی،اُسی قدر یہ اعمال بھی ظہور پذیر ہوں گے اور اسی محبت کے کمال سے توحید کی تکمیل ہو گی اور اس کی کمزوری سے اس میں کمزوری واقع ہو گی،پس اس میدان میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں:٭ بعض کی محبت کامل ترین۔٭ بعض کی محبت کمزور اور ضعیف۔٭ اور بعض بدقسمت وجودِ محبت سے بالکل کورے۔
اخوت،محبت اور نصرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور بالکسر اَمارت کے معنی میں،اور یہاں پہلی صورت مراد ہے۔مسند احمد اور طبرانی میں ایک روایت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:(ترجمہ)’’انسان واضح طور سے ایمان کی روشنی محسوس نہیں کر سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لئے محبت نہ کرے اور اس کی رضا کے لئے دشمنی نہ رکھے،اور جب دوستی اور دشمنی اللہ ہی کے لئے کرے گا تو پھر اللہ کی محبت اور ولایت کا حقدار ہو جائے گا۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:’’ایمان کی مضبوط ترین کڑی یہ ہے کہ انسان کی دوستی اور دشمنی صرف اللہ ہی کے لئے ہو۔‘‘(رواہ الطبرانی)۔
صوم و صلوٰۃ کی کثرت کے باوجود بھی اس کو ایمان کی لذت اور اس کی مٹھاس حاصل نہیں ہو سکے گی جب تک کہ وہ اپنے اندر محض اللہ تعالیٰ کے لئے دوسروں سے محبت،عداوت،دوستی اور دشمنی کی صفات پیدا نہ کرے جیسا کہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ترجمہ)’’جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت کرتا ہے،اس کے لئے بغض رکھتا ہے،اسی کے لئے خیرات دیتا اور اسی کے لئے روکتا ہے،اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔‘‘
دنیوی غرض سے ایک دوسرے سے میل ملاپ بجائے فائدہ کے الٹا نقصان دے ہوتا ہے،اس کی وضاحت قرآن کریم میں موجود ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(ترجمہ)’’وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔‘‘(الزخرف:۷۶)۔
دنیوی اغراض کی بنا پر ایک دوسرے سے لین دین اور دوستی ایک فتنہ ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دَور میں،جو بالاتفاق خیر القرون کہلاتا ہے،یہ بات مصیبت کا باعث بن گئی تھی اور آج تک اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ شرک و بدعت،فسق و فجور اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بنیاد پر دوستیاں قائم کی جارہی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل ارشاد حرف بحرف صادق آ رہا ہے کہ:’’اسلام اپنے ابتدائی دَور