کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 188
میں نہ تو غیر اللہ سے تعلق ہے اور نہ اللہ کے سوا کسی سے رغبت ہے۔یہاں اس محبت میں جو اللہ کے لئے ہو اور اس محبت میں جو مشرکین اپنے باطل معبودوں سے کرتے ہیں،ایک نمایاں فرق اور امتیاز موجود ہے کیونکہ مشرکوں کے دِلوں میں اُن کی اُلوہیت کا عنصر غالب ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کہیں جائز نہیں ہے۔ ولھما عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فَیْہِ وَجَدَ بِھِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰه وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوِاھُمَا وَ أَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ وَ أَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰه مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ أَنْ یُّقْذَفَ فِی النَّارِ صحیح بخاری ومسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین صفات ایسی ہیں وہ جس شخص میں بھی ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس اپنے اندر ضرور محسوس کرے گا۔پہلی یہ کہ الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب سمجھے۔دوسری یہ کہ کسی شخص سے محض الله تعالیٰ کے لئے محبت کرے۔تیسر ی یہ کہ کفر میں جانا اس قدر ناپسند کرے جس طرح کہ آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے۔بعد ااس بات کے کہ الله تعالیٰ نے اسے کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکالا۔ حلاوت سے وہ دِلی کیفیت مراد ہے جو کسی نعمت اور خوشی کے موقع پر دِل پر طاری ہوتی ہے اور یہ ذوق مومن اپنے قلوب میں ہمہ وقت محسوس کرتے ہیں۔علامہ سیوطی رحمہ اللہ التوشیح میں لکھتے ہیں:’’زیر بحث حدیث میں استعارہ تخیلیہ ہے جس میں ایک مومن کی رغبت کو میٹھی شے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کا لازم ذکر کر کے اِس کے ایمان کی طرف مضاف کیا ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اطاعت الٰہی کے وقت،مصائب جھیلتے وقت،دُنیوی اغراض کو پس پشت ڈالتے وقت،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے اور اُس کی مخالفت سے رُکتے وقت،جو کیفیت اور سُرور ایک مومن کے دِل میں اُبھرتا ہے،اُس ذوق کو حلاوتِ ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کی حقیقت یہ ہے کہ انعام و اکرام کے وقت اس میں زیادتی نہ ہو اور مصائب و مشکلات اور امتحان کے وقت اس میں کمی نہ ہو۔‘‘ رہی وہ محبت جو طبعاً اور فطرتاً ایک انسان اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں سے کرتا ہے،یہ محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے برابر نہ ہو بلکہ کمتر ہو۔امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہاں طبعی اور فطری محبت مراد نہیں ہے بلکہ وہ محبت مراد ہے جو اختیار ی ہو۔‘‘ لیکن محبت شرکیہ جس کا سابقہ صفحات میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے،جو اللہ تعالیٰ