کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 186
اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں کو اپنی پسندیدہ چیزوں پر ترجیح دے،جسے اللہ پسند کرتا ہے ان کو پسند کرے اور جو اُمور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اُن کو ترک کر دے کسی سے دوستی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اور دشمنی ہو تو فقط اُس کی رضا کے لئے اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرے کیونکہ اسی میں انسان کی فلاح اور کامیابی مضمر ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رضی اللّٰه عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَ وَالِدِہٖ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔(صحیحین)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں ہوسکتا ہے۔جب تک وہ مجھے اپنی اولاد اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے۔
ایمانِ کامل یہ ہے کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی اولاد،اپنے ماں باپ،حتی کہ تمام دنیا سے زیادہ محبت ہو۔حقیقت یہ ہے کہ کمال کا یہ درجہ اُس وقت تک حاصل ہونا ممکن نہیں جب تک کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنی جان سے بھی زیادہ نہ ہو۔صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مجھے اپنی جان کے علاوہ تمام دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:’’مجھے اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے،جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک تم مومن نہیں ہو سکتے۔عمر رضی اللہ عنہ بولے:اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ٹھیک ہے۔‘‘ جو شخص یہ کہتا ہے کہ نفی کمال مراد ہے،اگر اس سے اُس کا مقصد کمالِ واجب مراد ہے جس کے ترک کرنے والے کی مذمت کی گئی ہے اور اس کی سزا بھی سنا دی گئی ہے تو وہ صحیح کہتا ہے۔اور جو شخص یہاں کمال مستحب سمجھتا ہے تو اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی نہ کلام اللہ میں،نہ کلامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا اور دوسرے لوگوں کے اقوال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر ترجیح دیتا ہے تو وہ اپنے دعوائے محبت میں جھوٹا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:(ترجمہ)’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہم نے اطاعت قبول کی مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ اطاعت سے