کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 176
نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو،ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے،یہی لوگ ہیں جن کے لئے اُن کے عمل کی دُہری جزا ہے اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے۔‘‘(السبا:۳۷)۔
سنن ابی داؤد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ترجمہ)’’اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی حماقت اور آباء و اجداد کا فخر دُور کر دیا ہے اب یا تو متقی مومن ہو گا یا فاجر و فاسق،سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی۔اب لوگوں کو قومی فخر و مباہات کو ترک کر دینا چاہیئے کیونکہ وہ جہنم کے کوئلے بن چکے ہیں یا پھر وہ اللہ کے نزدیک گندگی کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے۔‘‘
ایک دفعہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی والدہ کے نسب کے بارے میں عار دلائی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے اور فرمایا:’’تو نے اُسے اُس کی ماں کے بارے میں عار دلائی ہے،ابھی تمہارے اندر جاہلیت کی بو موجود ہے۔‘‘ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حسب و نسب میں عیب نکالنا بھی اعمالِ جاہلیت میں سے ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی مسلمان میں بھی ایسے اعمال،جن کا تعلق جاہلیت،یہودیت اور نصرانیت سے ہے،پائے جاتے ہیں،ان سے کوئی مسلمان کافر یا فاسق نہیں ہو جاتا۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ اس قسم کی معمولی لغزش سے انسان کافر نہیں ہو جاتا
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ابن جریر رحمہ اللہ نے سیدنا جابرالسوائی سے ایک روایت نقل کی ہے،جس میں جابر سوائی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:’’مجھے اپنی امت کے بارے میں تین چیزوں سے خطرہ ہے:۱۔ستاروں کے ذریعے سے بارش طلب کرنا۔۲۔بادشاہ کا ظلم۔۳۔اور قضا و قدر کی تکذیب۔‘‘ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’’ہمیں فلاں منزل یا فلاں ستارہ کی وجہ سے بارش ملی)تو وہ دو حال سے خالی نہیں:ایک یہ کہ کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ بارش برسنے میں ستاروں کو بہت بڑا دخل اور اثر حاصل ہے۔پس یہ عقیدہ کفر اور شرک کا ہے۔قبل از بعثت مشرکین عرب کا یہی عقیدہ تھا جیسا کہ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ میت یا غائب کو پکارنا قرین صحت ہے،کیونکہ وہ نفع پہنچانے اور مصائب دور کرنے پر قادر ہیں۔اس کو شریعت اِسلامیہ نے شرک سے تعبیر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ نہ چھوڑے اس کے ساتھ جنگ کی جائے۔اِسی کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ:(ترجمہ)’’اے ایمان والو! کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کیلئے ہو جائے‘‘(انفال:۳۹)۔