کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 166
سنے کہ یا واجد! تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ میری چیز مجھے ضرور مل جائے گی۔مندرجہ ذیل حدیث اس کی تائید کرتی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فال کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بات کو فال کہتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ مجھے فال بہت اچھی لگتی ہے جس سے ثابت ہوا کہ فال اور چیز ہے اور طیرہ جس کی ممانعت کی گئی ہے،اور چیز ہے۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’فال کو پسند کرنے یا اس سے خوش ہونے میں شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی،بلکہ یہ انسانی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہے کیونکہ فطرف انسانی ہر اُس چیز کو اچھا سمجھتی ہے جو اس کے ذوق کے مطابق ہو،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں دو چیزیں پسند ہیں،ایک خوشبو اور دوسری عورت۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو محبوب گردانتے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی آواز سے اذان اور تلاوتِ قرآنِ کریم کو سننا بہت محبوب تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اخلاق اور عمدہ خصلتوں اور عادتوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھی چیز کو،اور جو اُس کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہو اُسے پسند فرماتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت اور فطرت میں یہ صفت ودیعت فرما دی ہے کہ وہ ہر اچھے نام کو چاہتا اور اُس سے محبت کا خواہاں ہے جس کی وجہ سے انسان طبعی طور پر ان کی طرف میلان رکھتا ہے جیسے انسان کی طبیعت ہے،اسی طرح ان اشیاء کے ناموں میں بھی یہ تاثیر رکھ دی ہے جس سے انسان ان کا نام سنتے ہی خوشی اور مسرت محسوس کرنے لگتا ہے جیسے کامیابی و کامرانی،تندرستی اور سرخروئی اور مبارکبادی وغیرہ الفاظ سنتے ہی انسان کی طبیعت کھلکھلا اٹھتی ہے،دل مضبوط ہو جاتا ہے اور سینہ کھل جاتا ہے اور انسان کا جسم ایک تازگی محسوس کرنے لگتا ہے۔لیکن مذکورہ اوصاف کے خلاف اگر کوئی چیز انسان کے کان میں پڑے تو غم اور خوف کے آثار دکھائی دیتے ہیں،اور انسان کا جسم ایک گھٹن سی محسوس کرتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ چیز دنیا میں مصائب و مشکلات کا پیش خیمہ بنتی ہے اور قوتِ ایمانی میں نقص اور کمی واقع ہو جاتی ہے،بعض اوقات تو یہ چیز انسان کے شرک میں مبتلا ہو جانے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔‘‘
حلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فال کو اس لئے پسند فرمایا کہ نحوست بری چیز تھی،جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے متعلق بغیر کسی سبب کے بدگمانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔البتہ فال سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور اس لئے بھی کہ انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھے۔‘‘