کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 165
تعالیٰ ہی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔دونوں صورتوں میں فقط اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کو دخل ہے،اللہ تعالیٰ مختلف اسباب و نتائج پیدا کرتا ہے جیسے کستوری سے خوشبو آئے گی جس سے انسان محظوظ ہوتا ہے اور لذت حاصل کرتا ہے اور گندگی سے بدبو آئے گی جس سے ہر انسان نفرت کرتا ہے۔ان دونوں قسموں میں فرق واضح ہے۔یہی صورت مذکورہ حدیث کی۔پس مبارک و منحوس اشیاء اور تطیر میں فرق ہے،وہ ایک قسم ہے،اور یہ دوسری قسم۔‘‘
ولھما عن انس قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لَا عَدْوٰی وَ لَا طِیَرَۃَ وَ یُعْجِبُنِی الْفَالُ قَالُوْا وَ مَا الْفَالُ قَالَ اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ
ترجمہ:صحیحین میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہے اور نہ فال بد کوئی چیز ہے اور مجھے فال پسند ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ فال کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بات کو فال کہتے ہیں۔
ابو السعادات رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’فال خوشی،اور تکلیف دونوں حالتوں پر بولا جاتا ہے۔البتہ طیرۃ تکلیف دہ حالت کے لئے خاص ہے۔بعض اوقات خوشی کی حالت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال کو اس لئے پسند فرمایا ہے کہ جب لوگ اللہ کی طرف سے کسی فائدہ کی اُمید کریں گے اور کسی اچھے نتیجے کی توقع رکھیں گے تو ان کے حصول کے لئے خواہ سبب ہلکا پھلکا ہو یا بہت بڑا دونوں صورتوں میں خیر ہی ہو گی۔اور اگر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمیدیں اور آرزوئیں ختم کر لیں گے تو سوائے مصائب کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔لیکن تطیر میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے بدگمانی اور مصائب کی توقع کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔تفاؤل کی صورت یہ ہے کہ جب مریض کسی کو یہ کہتا ہوا سنے کہ یا سالم! تو مریض کے دل میں فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اب میں بہت جلد صحت یاب ہو جاؤں گا۔یا کوئی شخص اپنی کسی گم شدہ چیز کو تلاش کر رہا ہو اور وہ کسی کو یہ کہتا ہوا