کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 164
اُس کا شرک میں مبتلا ہو جانا اس کے دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتا ہے۔اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس امر کی پوری تفصیل سے آگاہ فرمایا اور اس قسم کے تطیر وغیرہ نقصانات اور فساد فی الدین کی وضاحت بیان فرمائی تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی علامت نہیں بیان کی اور نہ اس قسم کے خوف و ہراس کی کوئی وجہ جواز ہے تاکہ لوگوں کے دِل مطمئن رہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت راسخ ہو جائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ان کے سینوں میں مستحکم اور مضبوط تر ہو جائیں۔یہی وہ مقصودِ اعظم ہے جس کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا،اور اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے کتابیں بھی نازل فرمائیں،اسی مقصد توحید کی خاطر زمین و آسمان کی تخلیق کی،جنت اور دوزخ کے لئے توحید کو میزان قرار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں سے شرک و بدعت کی جڑوں کو کاٹا تاکہ لوگ اہل جہنم کے سے عمل سے دامن کشاں رہیں۔ پس جو شخص توحید کی مضبوط رسی کو تھام لے،اور اللہ تعالیٰ پر توکل اور یقین کو پختہ کر لے تو طیرہ وغیرہ کے دل میں جاگزین ہونے سے پہلے ہی اسکی جڑیں کٹ جائیں گی اور اس کے تمام تخیلات باطلہ ختم ہو جائیں گے۔ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہمارے اوپر سے ایک پرندہ چیختا ہوا گزر گیا۔ایک آدمی کہنے لگا ’’بھلائی ہے بھلائی ہے۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ ’’دیکھو! اس میں خیر ہے نہ شر ہے۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی اس کی تردید اور ممانعت فرمائی کہ کہیں اس کے دِل میں خیر و شر کی تاثیر کا عقیدہ نہ پیدا ہو جائے۔ چند احادیث اس قسم کی موجود ہیں جن سے بعض علماء نے فال لینے کا جواز پیش کیا ہے،ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ترجمہ)’’تین چیزوں میں نحوست ہے،۱۔عورت،۲۔گھوڑے،اور ۳۔مکان میں۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کا بہترین جواب دیا ہے،فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد گرامی میں شوم وغیرہ کے اثبات کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی۔حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اشیاء کو منحوس اور بعض کو مبارک پیدا کرتا ہے۔منحوس کے پاس جانے سے نحوست پیدا ہو جاتی ہے اور مبارک اجسام والے افراد سے خیر و برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔جیسے کسی کے ہاں صالح لڑکا پیدا ہو تو گھر میں چار چاند لگ جاتے ہیں،اور اگر منحوس لڑکا ہو تو اس کے شر سے سارا گھرانا برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔لہٰذا اس حدیث میں عورت،گھر اور گھوڑے کی بھی یہی صورت ہے کسی کو نیک بخت،منحوس اور صاحب ِ خیر پیدا کرنا اللہ