کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 15
مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰه اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰه اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(الانعام:۱۵۱،۱۵۲،۱۵۳)۔
اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! ان سے کہوکہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پرکیا پابندیاں عائد کی ہیں۔(۱)۔یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔(۲)۔اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔(۳)۔اوراپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو،ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دینگے۔(۴)۔اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوئی۔(۵)۔اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو،مگر حق کے ساتھ۔یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے،شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔(۶)۔اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو،یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رُشد کو پہنچ جائے۔(۷)۔اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو،ہم ہر شخص پرذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے اِمکان میں ہو۔(۸)۔اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتے دارہی کا کیوں نہ ہو۔(۹)۔اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔(۱۰)۔نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے،لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے،یہ وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو۔
مشرکین مکہ سے جب پوچھا جاتا کہ ’’یہ نیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم کو کیا کیا باتیں بتاتا ہے جو تم اس کی اتنی زبردست مخالفت کر رہے ہو؟ تو وہ یہ جواب دیتے کہ ہمیں بتاتا ہے:ترجمہ:تم صرف اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور اپنے آباء و اجداد کی رسموں کو چھوڑ دو۔یہ وہی بات ہے جو ابوسفیان نے ہرقل کے دربار میں،اس کے ایک سوال کے جواب میں کہی تھی اور ابوسفیان اور ان کے ہمنواؤں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ قُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه تُفْلِحُوْا سے یہی سمجھا تھا کہ جب تک ہم اپنے باپ دادا کے رسم و رواج کو نہیں