کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 121
عام ہے اور خلت خاص محبت کی انتہا کو خلت کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیل ٹھہرا لیا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی اور خلیل نہیں ہے،جہاں تک محبت کا تعلق ہے اس کی صف میں کئی لوگ آتے ہیں چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُن کے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ سے آپ کو محبت تھی اسی طرح اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں،پاک و صاف رہنے والوں اور صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی مخلوق میں سے صرف دو انبیاء کو خلیل ٹھہرایا ہے ایک سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اور دوسرے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں اس میں رافضیوں(موجودہ اہل تشیع)اور جہمیوں کی تردید ہو گئی کیونکہ یہ دونوں فرقے اہل بدعت میں سے سب سے زیادہ شریر ہیں بلکہ بعض سلف نے تو ان کو بہتر فرقوں میں سے بھی باہر نکال دیا ہے۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ان رافضیوں(شیعوں)کی وجہ سے شرک اور قبروں کی پوجا شروع ہوئی اور یہ وہ فرقہ ہے جس نے سب سے پہلے قبروں میں مساجد تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی انہیں توحید سے سب سے دُور بتلایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جس سے زیادہ ہو گی وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا زیادہ مستحق ہو گا۔دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔تیسری یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لئے فرمائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برہم اور ناراض ہوئے۔یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا ہے۔
یہود و نصاریٰ کے اس فعل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انکار فرمایا ہے،اس کے دو سبب تھے:۱۔پہلا یہ کہ وہ انبیائے کرام کی قبروں کو تعظیمی سجدہ کیا کرتے تھے۔۲۔دوسرا یہ کہ وہ انبیاء کی قبروں پر نماز پڑھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور حالت نماز میں ان انبیاء کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ایک خاص درجہ حاصل ہو جائے گا۔پہلی صورت شرکِ جلی کہلاتی ہے اور دوسری شرکِ خفی۔اِسی بنا پر وہ لعنت کے مستحق ٹھہرائے گئے۔
جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درجہ سخت تہدید،شدید وعید اور ان کو ملعون قرار دینے کے بعد ایک