کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 114
طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تعریف میں نصاریٰ نے مبالغہ کیا تھا۔میں ایک بندہ ہوں،بس مجھے اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہو۔(بخاری و مسلم)۔
برا ہو مشرکین کا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر کان نہ دھرا۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر اُتر آئے جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا تھا اس پر عمل کرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس انداز سے تعریف کی کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے میں شدید مخالفت کی اور غلو اور شرک میں نصاریٰ کی مشابہت اختیار کر لی اور محذورات و منہیات میں گر پڑے۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نظم و نثر میں اتنی کتابیں لکھیں جن کا شمار کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے دور کے بعض ان مشرک علماء کی تردید کی ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ:’’جن جن مواقع پر اللہ تعالیٰ سے استغاثہ جائز ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی استغاثہ جائز ہے۔‘‘
اسی موضوع پر خاصی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن کی شیخ الاسلام نے خوب تردید کی ہے۔شیخ الاسلام کی یہ تردید اب بھی کتابی صورت میں موجود ہے۔ایک شخص اپنی کتاب میں لکھتا ہے:’’غیب کی وہ چابیاں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں اُن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی باخبر ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ بھی اُس نے بہت سی خرافات اپنی کتاب میں جمع کر دی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو قلبی بصیرت کے اس اندھا پن سے محفوظ رکھے۔آمین۔اس ضمن میں بوصیری کی ایک نظم یا یہ شعر دیکھئے:لکھا ہے:(ترجمہ)’’اے مخلوق میں سے بہترین انسان! میں تیرے سوا خطراتِ عامہ میں کس کی پناہ میں آؤں۔‘‘ اس کے بعد کے اشعار پر غور کیجئے کہ اخلاص،دعا،اُمید و رجا،اعتماد اور مشکلات میں پناہ کی خواہش کا اظہار جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے،ان اشعار میں ان چیزوں کو غیر اللہ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے۔
اصل میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے انکار ہے۔کیونکہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اس کے خلاف عمل کیا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیئے گئے ہیں۔حقیقت میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں شیطان نے شرک کو ان کے قلب و ذہن میں پیوست کر دیا ہے۔توحید اور اخلاص کو جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحمت فرما کر مبعوث کیا تھا ناقص کر دیا ہے
واقعہ یہ ہے کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و توقیر کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نقص اور گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ افراط تعظیم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔یہ اس کا ارتکاب