کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 113
جب یہ چیز اِن کے ذہن میں راسخ ہو گئی تو کہا:دیکھو! لوگوں کو بھی ان بزرگانِ کرام کی عبادت کی طرف بلاؤ۔اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان کے عُرس منانے کا اہتمام کرو،اور ان کے یومِ پیدائش مناؤ۔مشرکین نے جب دیکھا تو انہوں نے اس فعل کو انتہائی نفع بخش سودا سمجھا۔دنیا میں بھی مالا مال ہو گئے اور آخرت میں بھی اپنے آپ ہی کو نجات یافتہ قرار دیا۔ شریعت اسلامیہ کا ایک ادنیٰ طالبعلم بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب خرافات توحید کے منافی اور اُس دین کے سراسر برعکس ہیں جس کو دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے۔اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ فقط اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اس کے سوا اور کسی کے آگے نہ جھکا جائے۔جب یہ تمام باتیں مشرکین کے دلوں میں جاگزیں ہو گئیں تو شیطان نے اپنا آخری تیر بھی چلایا کہ:دیکھو! جو شخص تم کو اس عقیدے کو اپنانے اور ان اعمال پر کاربند رہنے سے روکے،وہ شخص ان مراتب عالیہ کا منکر ہے اور بزرگوں کی شان کو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان بزرگوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ اب اگر ان مشرکین کی اصلاح کے لئے کوئی بات کہی جاتی ہے تو وہ غضبناک ہو جاتے ہیں اور ان کے دِل نفرت کرنے لگتے ہیں۔مشرکین کی اس حالت کو قرآن کریم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:(ترجمہ)’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔‘‘(الزمر:۴۵)۔اور یہ بات اکثر جاہل اور طاغی نفوس کے سینوں میں بیٹھ چکی ہے۔اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اکثر اہل علم اور دیندار لوگ بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں حتی کہ یہ لوگ اہل توحید کے دشمن ہو گئے ہیں اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں اور عوام الناس کو ان سے متنفر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔لیکن اہل شرک سے ان کی دوستی ہے اور خوب بڑھا چڑھا کر ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں ان کی جہالت یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین اسلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اس کردار کی تردید کرتا ہے،ارشاد ہوتا ہے:(ترجمہ)’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہرگز نہیں ہیں،اللہ تعالیٰ کے دوست تو صرف متقین اور پرہیزگار لوگ ہی ہیں‘‘(الانفال:۳۴) وعن عمر رضی اللّٰه عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَااَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ اِنَّمَا اَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰه وَ رَسُوْلُہٗ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس