کتاب: مختصر ہدایۃ المستفید - صفحہ 102
کو اپنی رضا کا سبب اور ذریعہ بھی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو عدم اجازت اور شرک سے تعبیر فرمایا ہے اور اپنے غضب اور قہر کا باعث ٹھہرایا ہے۔اب ہر مشرک کی یہ کیفیت ہو چکی ہے کہ اس نے غیر اللہ سے فریاد کر کے حقیقت میں اپنی حاجت اور طلب کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو حائل کر لیا ہے۔معبودِ حقیقی کے ساتھ شرک اُس کے دین خالص میں تغیر و تبدل،اہل توحید سے عداوت اور دشمنی یہ سب عیب مشرکین نے اپنے اندر جمع کر رکھے ہیں۔ان کا شرک کرنا،خالق کائنات میں عیب اور نقص نکالنے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور موحدین کی مذمت اور ان سے عداوت ہے۔ ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہل توحید مردوں کی تنقیص کرتے ہیں حالانکہ خود ان کا عمل یہ ہے کہ شرک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تنقیص کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی تنقیص کے مرتکب ہوتے ہیں جن کو یہ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ان معنوں میں کہ اللہ کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ بزرگ ان کے اس شرک پر خوش ہیں اور یہ کہ خود انہوں نے ان کو شرک کی تلقین کی ہے اور یہ ان کی دوستی کا دم بھرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ شرک کرنے والے انبیاء و رُسل کے ہر دور میں اور ہر جگہ دشمن تصور کئے گئے ہیں۔خصوصاً جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا لیا گیا ان میں تو بہت زیادہ نقص نکالنے کی اس وجہ سے کوشش کی گئی کہ وہ ہماری ان عبادتوں پر راضی ہیں اور یہ کہ ان کو اس قسم کی عبادات کا انہوں نے خود حکم دیا تھا اور اس عبادت سے وہ خوش ہوتے ہیں۔ اس طرح کا کردار ادا کرنے والے مشرکین ہمیشہ کثیر تعداد میں اس دنیا میں رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت کی ہے۔اس شرکِ اکبر سے وہی بچ سکتا ہے جو توحید صرف اللہ کے لئے خاص کرے،اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مشرکین سے دشمنی مول لے،انکے ظلم و ستم برداشت کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے،اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کو اپنا دوست،الٰہ اور معبود سمجھے،تمام دنیا کی محبت کو دِل سے نکال کر صرف اللہ سے پیمانِ محبت باندھے۔ساری کائنات کا ڈر قلب سے محو کر کے فقط اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرے،اللہ ہی سے اپنی اُمیدیں وابستہ رکھے اور اپنی عجز و انکساری صرف اسی کے سامنے پیش کرے۔توکل اور بھروسہ ہو تو اللہ پر،کسی وقت امداد کا طالب ہو تو اللہ سے،گڑگڑائے تو اُسی کے سامنے،استغاثہ دائر کرے تو اُسی کی بارگاہِ قدس میں،مقصود و منتہیٰ اسی کو قرار دے،غرض اپنے تمام اُمور اس کی مرضی اور حکم کے مطابق انجام دینے کی عادت ڈالے اور اسی کی رضا کا طالب رہے جب سوال کرے تو اُسی ایک اللہ سے۔اعانت کا خواہاں ہو تو اُسی ایک اللہ سے۔کوئی بھی عمل کرے تو اُسی وحدہ لا شریک لہ کے لئے۔خود بھی اور اپنے تمام اُمور اور