کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 45
ہے اسی راوی ابوشیبہ“ الخ(بزعم شما آپ کاپرچہ دوم ص 3)
آپ نے یہ مؤمنانہ حسن ظنی والی بات بھی خوب کہی۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا) الخ اگر مؤمنانہ حسن ظنی ہی کافی ہوتی تو اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو تبین(تحقیق کرنے) کا حکم کیوں دیتے؟ مؤمنانہ حسن ظنی کا معنی آپ غلط سمجھے۔ مؤمنانہ حسن ظنی کا تقاضا ہے کہ ضعیف کو ضعیف ہی سمجھا جائے اورثقہ کو ثقہ ہی۔ ثقہ کو ضعیف اور ضعیف کو ثقہ سمجھنا اور قراردینا کوئی مؤمنانہ حسن ظنی نہیں۔ تو مؤمنانہ حسن ظنی ہی چاہ رہی ہے کہ ضعیف راوی ابوشیبہ واسطی کو ضعیف ہی سمجھا اور قراردیاجائے۔
قاضی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان واسطی کو محدثین نےضعیف کہا اور قراردیا ہے۔ چنانچہ اسماء رجال کی کتابوں میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر آپ کا خیال ہے کہ بعض محدثین نے اسے ثقہ بھی قراردیاہے۔
چنانچہ آپ لکھتے ہیں: قال يزيد بن هارون: ما قضى رجل أعدل فى القضاء منه، وقال ابن عدى: له أحاديث صالحة، وهو خير من أبى حَيّة (تہذیب جلد اول ص125واکمال ص 20)(بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص 3)
1۔ آپ کا دعویٰ ہے”بعض نے ثقہ بھی قراردیا ہے“ اور بطور دلیل جو عبارت آپ نے پیش فرمائی اس میں اس کے ثقہ ہونے کا بیان نہیں اس میں تو صرف اتنی بات ہے کہ موصوف واسطی صاحب أعدل فى القضاء، إبراهيم بن أبى حَيّة سے اچھے اور ان کی کچھ احادیث صالحہ ہیں اور اہل علم جانتے ہیں کہ ان تینوں وصفوں سے ان کے حامل موصوف کا ثقہ ہونا لازم نہیں آتا۔ لہٰذا آپ کسی محدث کا وہ قول پیش فرمائیں جس میں اس کےثقہ ہونے کا بیان ہو۔