کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 41
کو ابوین اور والدین کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی ہے:
” وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ “ الخ(سورۃ النساء) ” وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ“ الخ(سورۃ یوسف) ”وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا“(سورہ بقرۃ، سورہ نساء اورسورۃ بنی اسرائیل)
تو یہ صرف قانون تغلیب کے پیش نظر ہی ہے نہ اس لیے کہ ماں بھی اب یا والد ہے تو آپ کے صحاح ستہ کے لفظ سے ابن ماجہ کی روایت” ولوعاش“الخ کی صحت کو اخذ کرنے میں بس اتنی ہی معقولیت ہے جتنی کہ ابو ین والدین کے لفظ سے ماں کے اب (باپ)یا والد ہونے کو اخذ کرنے میں۔
آپ مزید لکھتے ہیں”حدیث نبوی“ ” لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا “ کو آپ ٹھکرارہے ہیں کہ سند میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان معتبر نہیں حالانہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ صحاح ستہ میں آنے کے سبب آپ اسے قبول کرنے کے پابند ہیں اس لیےحدیث پاک کو رد کرنے میں دلیری نہ کریں۔ “(بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص2)
جواباً گزارش ہے کہ یہ بندہ حدیث نبوی کو نہیں ٹھکرارہا۔ دیکھئے آپ نے حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث کا ذکر کیا تو بندہ نے اسےبسر و چشم قبول کیا رہا جملہ” لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا “ جس کو آپ حدیث نبوی سمجھے بیٹھے ہیں تو وہ حدیث نبوی ہر گز نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں راوی ابراہیم بن عثمان معتبر نہیں اس لیے آپ کا مجھے حدیث نبوی کو ٹھکرانے کا طعنہ دینا بے جا اور غلط ہے نیز آپ کا قول ”حالانکہ آپ کو علم ہونا چاہیے“الخ بالکل ہی نادرست ہے اس کی حیثیت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کوئی آپ سے کہے”ماں کےباپ ہونے کو آپ ٹھکرا رہے ہیں حالانکہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ ماں کے”وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا“میں آنے کے سبب آپ اسے والد اور باپ کہنے کے پابند ہیں اس لیے ماں کے باپ ہونے کو رد کرنے میں دلیری نہ کریں“تو جملہ” لَوْ عَاشَ “الخ حدیث نبوی نہیں ہے لہٰذا آپ