کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 39
علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی عیسیٰ بن مریم نہیں اس لیے مرزا صاحب نبی اللہ بھی نہیں۔ (میرا رقعہ نمبر2ص1وص2)
اس کا کوئی جواب تو آپ سے بن نہ پڑا۔ آیت” لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ“سے صرف” لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ “ کو جملہ”وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ“ کے بغیر پڑھنے والوں کی طرح آپ نے لکھ مارا” معترض نے جواباً لکھاہے۔ 1۔ حدیث میں ایک نبی اللہ کی آمد کا تذکرہ تو ضرور ہے۔ 2۔ حدیث میں نبی اللہ کی پیشگوئی ہے“حالانکہ پہلی عبارت پوری بندہ کی تحریر میں اس طرح ہے” صحیح مسلم میں موجود حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ایک نبی اللہ کی آمد کاتذکرہ تو ضرور ہے مگر وہ نبی اللہ مرزا غلام احمد قادیانی نہیں اور نہ ہی مرزا صاحب کوئی اور نبی ہی ہیں کیونکہ اسی حدیث میں اس نبی اللہ کا لقب، اس کانام اور اس کی والدہ ماجدہ کانام بھی تو مذکور ہے نا الخ اور اسی طرح دوسری عبارت بھی بندہ کی تحریر میں اس طرح ہے”لہٰذا حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ والی حدیث جس میں نبی اللہ کی پیشگوئی ہے وہ نبی اللہ عیسیٰ بن مریم ہیں علیہ الصلاۃ والسلام اور مرزاغلام احمدقادیانی بن چراغ بی بی عیسیٰ بن مریم نہیں اس لیے مرزا صاحب نبی اللہ بھی نہیں“چنانچہ بندہ اپنے رقعہ نمبر 2 سے پوری عبارت تفصیلاً نقل کرچکا ہے اسے ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمالیں۔ تو دیکھا جناب نے بندہ کی اس مقام پر عبارت میں دو جگہ کیسی قطع وبرید کی پھر آپ نے اپنی اس قطع وبرید کے بل بوتے پربہتان ”دوسری طرف حضور کے بعد امتی نبی کی بجائے ایک مستقل نبی کے منتطر ہیں“مجھ پر تھوپ دیا آیا آپ کے مذہب میں خدا خوفی اسی کانام ہے؟ ہاں تو بندہ کی عبارات آپ کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہیں جبکہ آپ اس سے قبل آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضر ت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مذکور بیان میں ایسا کرچکے ہیں چنانچہ بندہ نے لکھا تھا” آپ اس مقام پر اپنی عبارت پر ذرا نظر ثانی فرمائیں کہ آپ نے اس حدیث نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ میں چار دفعہ نبی اللہ والے