کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 34
جائیں گی“(میرا رقعہ نمبر2ص1) اس کو پڑھ کر آپ لکھتے ہیں”امراول کے متعلق دو آیات قرآنی اور تین احادیث نبویہ پر مشتمل دلائل کے پیش نظر معترض نے جواباً لکھا ہے:
1۔ حدیث میں ایک نبی اللہ کا تذکرہ تو ضرور ہے۔ “
2۔ حدیث میں۔۔ ۔ ۔ نبی اللہ کی پیشگوئی ہے۔ “(بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص1)
1۔ آپ نے دیکھ لیا کہ بندہ نے یہ دونوں باتیں”حدیث میں ایک نبی اللہ الخ“اور ”حدیث میں جس نبی اللہ کی“الخ امکان و عدم امکان نبوت والا مسئلہ کے عنوان کے تحت نہیں لکھیں کیونکہ نزول مسیح ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے نزدیک امکانی نہیں واقعی مسئلہ ہے پھر وقوع فی المستقبل اور امکان فی المستقبل میں بڑا فرق ہے۔ كَمَا لَا يَخْفيٰ عَليٰ اَهْلِ الْعِلْمِاسی لیے بندہ نے امکان و عدم امکان نبوت والا عنوان جدا اور (إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ) والا عنوان جدا قائم کیا تھا اور مندرجہ بالا دونوں باتیں میں نےدوسرے عنوان (إِنَّمَا الْمَسِيحُ) الخ کے تحت درج کی ہیں اور آپ کے امر اول”امکان و عدم امکان نبوت والے مسئلہ“کے جواب میں بندہ نے وہی کچھ لکھا جو اوپر نقل کردیا گیا ہے اور اس کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں۔
2۔ رہا آپ کا لکھنا ”آپ نے بغیر سوچے سمجھے ایک بات کردی“الخ(بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص2) تو وہ میری اس بات کا جواب نہیں ہے کیونکہ ہماری اس بات چیت کا موضوع ہے آپ کا دعویٰ ”حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امتی نبی ہیں“نہ کہامکان و عدم امکان نبوت۔ پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ بعض چیزیں ممکن تو ہوا کرتی ہیں مگر واقع کبھی بھی نہیں ہوتیں نیز ہمارے بزرگوں کی آپ لوگوں کے ساتھ ابحاث بھی اپنی جگہ بجا، درست اور علم پر مبنی تھیں۔ رہا آپ کا سوال”توآپ کا طرز گفتگو کیسا ہے؟“توجواباً عرض ہے کہ میرا یہ طرز گفتگو ویسا ہی ہے جیسا آپ نے بذات خود اپنی 24جنوری والی پہلی تحریر میں