کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 29
2۔ آپ نے اپنے قول”مجھے افسوس ہے کہ معترض اپنے علم سے بڑھ کر کام کرنا چاہتے ہیں“ میں خوامخواہ بندہ کی نیت پر حملہ کیا ہے جس کا آپ کو قطعاً حق حاصل نہ تھا نہ ہے۔ یہ بندہ اپنے علم سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ جل وعلا اپنے فضل وکرم کے ذریعہ مجھ سے میرے علم سے بڑھ کر خدمتِ دین کا کوئی کام لے لیں تو اس سے بڑھ کر میرے لیے اور کیا سعادت ہوسکتی ہے رہا آپ کو افسوس والا معاملہ تو اس کا تعلق بندہ کے کسی کام اور ارادے سے نہیں اس کا تعلق ہے تو صرف اور صرف آپ کواپنےدعویٰ”حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امتی نبی ہیں“ کی قرآن وحدیث میں کوئی دلیل نہ ہونے اور نہ ملنے سے ہے اور یہ افسوس ان شاء اللہ ہمیشہ آپ کا دامن گیر رہے گا الا یہ کہ آپ تائب ہوجائیں۔
3۔ آپ اپنے دونوں قولوں ”کسی سے علم منطق کی ابجد سیکھ لیں تو بہتر ہے“اور”خدا خوفی سے سوچیں“ الخ میں علم منطق سے نا واقف ہونے اور خدا خوفی کے بغیر سوچنے کے بندہ پر دو بہتان لگائے ہیں۔ فخر نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس بندہ میں یہ دونوں چیزیں ”علم منطق کی واقفیت اور خدا خوفی“ آپ سے تو زیادہ ہی ہیں چنانچہ اسی تحریری بات چیت سے واضح ہے۔
4۔ آپ اپنی تحریر میں مذکور آیات وروایات کو اپنے دعویٰ”حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امتی نبی ہیں“ کی دلیل سمجھ رہے ہیں جیسا کہ آپ کے قول خدا خوفی سے سوچیں کیا میں نے تحریری پرچہ“الخ سے واضح ہورہا ہے حالانکہ یہ آیات وروایات آپ کے مذکورہ بالا دعویٰ”حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امتی نبی ہیں“ کی دلیل نہیں ہیں اسی لیے تو بندہ نے خدا خوفی سے سوچ کرہی لکھا تھا”آپ اس تحریر سے قبل زبانی بات چیت میں مرزا صاحب کے اُمتی نبی ہونے کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ پیش کرسکے تھے ورنہ آپ یوں نہ لکھتے کہ”اس دعویٰ کے دلائل قرآن کریم اور احادیث سے“ الخ اور جوتحریر آپ نے اب کے بھیجی ہے