کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 26
عدى: له أحاديث صالحة، وهو خير من إبراهيم بن أبى حَيّة (تہذیب جلد اول ص125واکمال ص 20)
یعنی ابن ہارون نے کہا ہے کہ ابراہیم بن عثمان سے بڑھ کر کسی نے قضاء میں عدل نہیں کیا اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی احادیث اچھی ہیں اور وہ ابی حیہ سے بہتر راوی ہے۔ ابوحیہ کے متعلق لکھا ہے:”وَثَّقَه دَارَ قُطْنِيُّ وَقَالَ النِّسَائِيُّ ثِقَةُ“ (تہذیب التہذیب جلد اول ص113) یعنی حضرت امام نسائی نے ابو حیہ کو ثقہ قراردیا ہے۔ اسی طرح بیضادی کے حاشیہ”الشہاب علی البیضاوی“ میں بھی اس حدیث کے متعلق لکھا ہے: ”امّا صحة الحديث فلا شبهة فيها “کہ اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
علامہ شوکانی اس حدیث کے متعلق مذکوراعتراض کو یوں رد فرماتے ہیں:وهو عجيب مع وروده عن ثلاثة من الصحابة وكأنه لم يظهر له تأويله (الفوائد المجموعہ ص141)
یعنی نووی کا اس حدیث سے انکار عجیب ہے باوجودیکہ اس حدیث کو تین صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے روایت کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نووی رحمۃ اللہ علیہ پر اس کے صحیح معنی نہیں کھلے۔
علامہ شوکانی کی بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ جو بات اسے اپنے نظریات کے خلاف معلوم ہو وہ اس کا انکار کر دیتا ہے اور پھر انکار کے جواز کے لیے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ورنہ جن خدا رسیدہ بزرگوں نے غور کیا انھوں نے اسے نہ صرف قبول کیا بلکہ پورا مضمون واضح کردیا۔ مثلاً امام علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے شک ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہو جاتے مگر امتی نبی جس کا آنا خاتم النبیین والی آیت کے خلاف نہیں:
(فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى : وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ، إِذِ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ)