کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 25
سے طلب کر رہے ہیں، ایک طرف آپ صحاح ستہ کہتے ہیں دوسری طرف معترض ہو رہے ہیں۔ یہ کیا چکر ہے۔ آپ خود ہی غور کریں ؎ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی 4۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ” لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا “کو آپ ٹھکرارہے ہیں کہ سند میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان معتبر نہیں۔ حالانکہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ صحاح ستہ میں آنے کے سبب آپ اسے قبول کرنے کے پابند ہیں اس لیے حدیث پاک رد کرنے میں دلیری نہ کریں!نیز غور فرمائیں: یہ حدیث آپ اس لیے تو رد نہیں کر رہے کہ آپ کے عقائد سے ٹکراتی ہے! غالباً ایسا ہی ہے۔ اصل حقائق 1۔ معترض سے زیادہ علم وفہم رکھنے والے بزرگ حضرت ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس اعتراض کو بیان کر کے فرمایا: في مسنده [1]أبو شيبة[2] إبراهيم بن عثمان الواسطي وهو ضعيف، لكن له طرق ثلاثة يقوي بعضها بعضا؟؟؟کہ حدیث کی سند میں ابراہیم بن عثمان ضعیف راوی ہیں لیکن یہ حدیث تو تین طریقوں سے بیان ہوئی ہے چنانچہ اس طرح یہ حدیث قوت پا رہی ہے۔ 2۔ رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ ایک آدمی کسی وجہ سے ایک کو غیر معتبر سمجھتا ہے اور دوسرا معتبر۔ مومنانہ حسن ظنی سے کام لیا جائے تو مسئلہ آسان ہو سکتا ہے اسی راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کو بعض محدثین نے ضعیف قراردیا ہے لیکن بعض نے ثقہ بھی قراردیا ہے چنانچہ تہذیب التہذیب اور اکمال الاکمال میں لکھا ہے:قال يزيد بن هارون: ما قضى رجل أعدل فى القضاء منه، وقال ابن
[1] 2۔ یہ دونوں لفظ آپ کی تحریر میں اسی طرح ہیں۔  [2]