کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 24
صداقت پر قرآن و حدیث سے دلائل پیش کرنا مجھ پر لازم ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ اس تحریر سے پہلے میں کوئی دلیل پیش نہ کر سکا۔ کسی سے علم منطق کی ابجد سیکھ لیں تو بہتر ہے۔
خدا خوفی سے سوچیں کہ میں نے تحریری پرچہ میں مذکور قرآن و حدیث والے دلائل مذکورہ تحریر سے پہلے زبانی گفتگو میں آپ کے سامنے نہیں بیان کیے تھے؟
2۔ معترض لکھتے ہیں:”امکان و عدم امکان نبوت کے مسئلہ پر بحث۔ ۔ ۔ ۔ فی الواقع غیر مفید ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری اس بات چیت میں بھی ذرہ برابر فائدے کی حامل نہیں۔ “
حضرت! آپ نے پھر بغیر سوچے سمجھے ایک بات کردی۔ آپ کے اکابر پون صدی سے یہ علمی بحث کرتے آرہے ہیں اور بایں وجہ احمد یوں کو ختم نبوت کا نعوذ باللہ منکر بتا رہے ہیں۔ کیا ان کا یہ طریق عمل بوجہ جہالت و لاعلمی تھا؟اور اگر ان کا طریق عمل درست تھا تو آپ کا طرز گفتگو کیساہے؟
شاید آپ اس لیے اس موضوع سے کترارہے ہیں کہ آپ ایک طرف ختم نبوت پر ایمان کے دعویدار ہیں اور دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبی کی بجائے ایک مستقل نبی کے منتظر ہیں؟
محترم! اگر ایک مقام کا امکان ہی نہ ہواور آپ اس مقام کے مدعی پر بحث کرنے لگ جائیں تو ایسی حالت میں دنیا آپ کو کیا کہے گی؟یہ تو آپ کو علم ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو رَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ ہیں وہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں آسکتے۔ اگر علم نہ ہو تو بے شک دریافت کریں ہم آپ کی پوری مدد کریں گے۔ ان شاء اللہ، مختصریہ کہ جو فوت ہو جائے وہ نہیں آیا کرتا۔
3۔ ایک عجیب مخمصہ کا آپ شکار ہیں۔ آپ جن بزرگوں کو اپنے بزرگ مانتے ہیں ان کی محنت شاقہ اور مسلسل دعاؤں سے جمع کی ہوئی احادیث کی سندیں ہم