کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 23
رسائی کے لیے دو مرحلے اعنی امکان اور بامر الٰہی اس مقام پر منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ، اپنے پرچہ اول میں تحریر کیے تھے۔ امر اول کے متعلق دو آیات قرآنی اور تین احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل دلائل کے پیش نظر ”معترض“نے جواب لکھا ہے: 1۔ ”حدیث میں ایک نبی اللہ کی آمد کا تذکرہ تو ضرور ہے۔ “ 2۔ ”حدیث میں۔۔ ۔ نبی اللہ کی پیش گوئی ہے۔ “ امردوم اعنی بموجب حکم الٰہی اس امکانی مقام پر فائز ہونے کا دعویٰ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حلفیہ تحریرات کی رُوسے پیش کیا نیز یہ وحی الٰہی کہ”جَعَلنَاكَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ“علاوہ ازیں قرآن کریم سے چار معیار بیان کیے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور مدعی کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ ”معترض“ان دلائل کے سبب اپنی عاجزی کا اظہاریوں کرتے ہیں: (جس طرح امر اول کے متعلق اقرار کر چکے ہیں) ”امکان وعدم امکان والی بحث کو چھوڑیں نیز صداقت وعدم صداقت مرزا صاحب والی بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ “(ص1) یہ صورت احوال حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام کےامتی نبی ہونے والے دعویٰ کی صداقت کا ازروئے قرآن کریم و احادیث نبویہ محکم ثبوت ہے۔ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ حصہ دوم سیدناحضرت مرزا صاحب علیہالسلام کی صداقت دعویٰ تو بموجب حصہ اول ثابت ہے۔ حصہ دوئم میں”معترض“کی زائد باتوں کے متعلق حقیقت حال بیان کرنا مقصود ہے۔ زائد اس لیے کہا ہے کہ بنیادی طور پر یہ باتیں دلائل کے رد میں نہیں۔ 1۔ مجھے افسوس ہے کہ معترض اپنے علم سے بڑھ کر کام کرنا چاہتے ہیں اپنے پرچہ کے آغاز میں فرماتے ہیں کہ چونکہ میں نے لکھا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی