کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 222
پر حضرت دلیل یہ دیتے ہیں۔ ”لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ“اس دلیل میں بالخصوص نماز تراویح کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ کیا قاضی صاحب بتائیں گے کہ یہاں پر عام سے خاص پر استدلال درست ہوا؟
دسواں جواب:
10۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ، اور قاضی صاحب کے دیگر بزرگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مذکورہ حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلوٰۃ التراویح پر استدلال فرماچکے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ قاضی صاحب کتنی دیر تک اپنے بزرگوں کے استدلال کو ٹھکرانا پسند کریں گے۔
”تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ “
قاضی صاحب کا اعتراض:
فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ سارے سال میں وتر تین اداہوتے تھے۔ اور غیر مقلدین کے ہاں متروک ہے۔
الجواب۔
تین وتر اہل حدیث کے ہاں متروک نہیں بلکہ معمول بہ ہیں باقی سارے سال والی بات۔ تو وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مذکورہ بالا حدیث میں نہیں۔ وہ تو قاضی صاحب کے ہاتھ کی صفائی کا ثمرہ ہے۔ بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے ایک اور حدیث مروی ہے:
(عن عائشةَ زوجِ النبيِّ صلَّى اللّٰه عليه وسلَّم، قالت: ((كان رسولُ اللّٰهِ صلَّى اللّٰه عليه وسلَّم يُصلِّي فيما بين أن يَفرَغَ من صلاةِ العشاءِ- وهي التي يَدْعو الناسُ العَتَمَةَ- إلى الفجرِ إحْدَى عشرةَ ركعةً يُسلِّم بين كلِّ ركعتينِ، ويُوتِرُ بواحدةٍ ...الخ) (متفق علیہ)
”اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فراغت اور فجر کے مابین گیارہ رکعت نماز پڑھتے ہر دو رکعت کے