کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 21
سمعان رضی اللہ عنہ آنے والے نبی اللہ کی والدہ کا نام مریم بتایا گیا ہے تو آنے والے نبی اللہ کی والدہ کا نام مریم ہے چراغ بی بی نہیں اور مرزا صاحب کی والدہ کا نام چراغ بی بی ہے مریم نہیں لہٰذا حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ والی حدیث میں جس نبی اللہ کی پیشگوئی ہے وہ نبی اللہ عیسیٰ بن مریم ہیں علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی عیسیٰ بن مریم نہیں اس لیے مرازا صاحب نبی اللہ بھی نہیں۔
آپ اس مقام پر اپنی عبارت پر ذرا نظر ثانی فرمائیں کہ آپ نے اس حدیث نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ میں چار دفعہ نبی اللہ والے لفظ کو تو پکڑ لیا اور اسی حدیث میں موجود ایک بار لفظ”الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ“کو دو دفعہ لفظ”عِيسٰي“کو اور چار مرتبہ لفظ”نبيُّ اللّٰه عيْسٰى عَلَيْه السَّلَامُ“سے عیسیٰ کو آپ نے اپنی تحریر میں جان بوجھ کر ذکر تک نہیں کیا”جان بوجھ کر“ کا لفظ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کی ہی تحریر سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ طویل حدیث آپ کے علم میں ہے ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کریں گے کہ وہ آپ لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے کہ آپ اس قسم کے کاموں ہی سے باز آجائیں۔
ثابت ہی نہیں
ابن ماجہ کی روایت ”وَ لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا “کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان نامی بھی ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے ”كَذَّبَه شُعْبَةُ“الخ لہٰذا یہ روایت سرے سے ثابت ہی نہیں پہلے اسے ثابت فرمائیں پھر استدلال کریں۔
سند پیش کریں
آپ کی تحریر میں پیش کردہ الخصائص الکبری للسیوطی کی روایت ” نَبِيُّهَا مِنْهَا“کی سند درکار ہے لہٰذا اس روایت کی سند پیش کریں۔
مرزا صاحب کے اقوال نہ قرآن ہیں اور نہ ہی حدیث
آپ نے خود ہی لکھا ہے”اس دعویٰ کے دلائل قرآن کریم اور احادیث سے پیش کرنا مجھ پر لازم ہے“اور واضح ہے کہ مرزا صاحب کے اقوال ہمارے نزدیک نہ تو قرآن ہیں نہ ہی حدیث اس لیے آپ کا اپنی تحریر میں مرزا صاحب کے اقوال کو