کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 181
نہیں۔ اگر وہ گیارہ رکعت نماز تراویح ہو اور یقیناً ہے تو آپ کو سنت سے اس قدر اعراض کیوں۔ اگر وہ نمازترایح نہ ہوجو واقعہ کے خلاف ہے تو بتائیے کہ نبی علیہ السلام نے نماز تراویح کبھی ادا بھی کی یانہیں۔ اگر نماز تراویح انہوں نے ادا کی ہے تو کتنی رکعت؟اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نمازتراویح ادا نہیں کی تو آپ بحوالہ تحریر کردیجیے۔ کہ نبی علیہ السلام نے نماز تراویح بالکل کبھی ادا نہیں کی۔ ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔ باقی رہے خلفاء راشدین وصحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو میں نے ان کی بابت اپنی پہلی تحریر میں لکھا تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تمام کے تمام نبی علیہ السلام کے متبع تھے۔ آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ [1] بلکہ اپنی دونوں تحریروں میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ اچھا اب ہی اپنی تحقیق انیق کی روشنی میں بتائیے۔ کہ خلفاء راشدین وصحابہ کرام نبی علیہ السلام کے متبع تھے تو وہ بھی یقیناً نماز تراویح اتنی رکعت ہی ادا کرتے ہوں گے۔ جتنی رکعت نماز تراویح نبی علیہ السلام ادا کرتے تھے۔ اگر آپ کا نظریہ یہ ہو کہ نبی علیہ السلام نے نمازتراویح بالکلیہ ایک رکعت بھی ادا نہیں کی۔ تو صحابہ پر بیس رکعت کا الزام کیوں؟بتائیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نبی علیہ السلام کی نماز تراویح معلوم تھی یا نہیں؟اور یقیناً معلوم تھی۔ تب ہی سائب بن یزید کے قول کے مطابق انہوں نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ اور یہی وہ روایت ہے۔ جس کا آپ نے
[1] ۔ قاضی صاحب نے اپنے پمفلٹ میں اس جگہ ایک حاشیہ درج کیاہے قاضی صاحب یہاں پراپنی پرویزی ذہنیت کا زہر اگل رہے کہ” حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے گیارہ رکعت نماز تراویح معلوم تھی تو تراویح ثابت ہی نہیں ہوئیں۔ تو اگلی بات خود بخود ہی ختم ہوگئی جب تک قاضی صاحب کو حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے گیارہ رکعت تراویح ثابت نہ ہوں۔ اتنی دیر تک وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو متبع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اب نامعلوم صحابہ پر اس الزام تراشی میں قاضی صاحب کس کی تقلید کا شکار ہورہے ہیں۔